وِصال اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ فرید
حضرت عائشہ صدیقہ کا وصال 17 رمضان المبارک 57یا58 ہجری کو مدینۂ منوّرہ میں ہوا ، آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ، حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبوب ترین رفیقۂ حیات ، عالمہ ، عابدہ ، زاہدہ ، طیبہ ، طاہرہ ، محدثہ ، فقیہہ اور مجتہدہ ہیں۔آپ رسول اللہ سددصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقیدِ حیات رہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اواخر سال عائشہ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے اواخر سال ہیں۔ سنہ 58ھ مطابق 678ء میں جب آپ کی عمر مبارک 67 سال کے قریب قریب تھی کہ ماہِ رمضان 58ھ/ جولائی 678ء میں علیل ہوگئیں اور چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی حال پوچھتا تو فرماتیں: اچھی ہوں۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں: کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی، کاش میں ایک درخت ہوتی کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی، کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی، کاش اللہ تعالیٰ مجھے پیدا نہ فرماتا، کاش میں زمین کی بوٹیوں میں سے کوئی بوٹی ہوتی اور قابل ذکر شے نہ ہوتی۔
عیسیٰ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے پوچھا کہ اِن تمناؤں سے کیا مراد تھا؟ کہنے لگے: اُم المومنین اِن تمناؤں سے دعا میں توبہ کا وسیلہ اختیار فرما رہی تھیں یہ تمام تمنائیں آپ کسر نفسی میں فرما رہی تھیں حالانکہ آپ ازل سے اُم المومنین کے خطاب سے سرفراز ہوئی ہیں)۔
اسماعیل بن قیس کہتے ہیں کہ بوقت وفات عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی نئی باتیں اِختیار کر لی تھیں، لہٰذا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج المطہرات کے پاس دفن کرنا (یہ آپ نے کسر نفسی میں فرمایا تھا)۔
ذکوان جو آپ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ جب آپ علیل ہوئیں تو میں اجازت حاصل کرکے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، آپ کے س رہانے آپ کے بھتیجے عبد اللہ بن عبد الرحمٰن تھے۔ میں نے کہا: آپ کے پاس عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آنا چاہتے ہیں، اُس وقت آپ دنیا سدھارنے والی تھیں، بولیں: ابن عباس کو نہ آنے دو، اِس وقت مجھے اُن کی اور اُن کی تعریفوں کی ضرورت نہیں۔ ذکوان نے کہا: اُم المومنین! ابن عباس آپ کے ایک نیک و صالح فرزند ہیں۔ آپ کو سلام کرنے اور رخصت کرنے آئے ہیں۔ بولیں: اچھا تو اگر تم چاہو تو اُنہیں بلا لو، آخر کار میں نے اُنہیں بلا لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آتے ہی آپ کو سلام کیا اور بیٹھ گئے اور بولے: بشارت ہو۔ بولیں: کس چیز کی؟ کہنے لگے: اُس کی جو آپ کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور دیگر احباب کی ملاقات کے درمیان میں ہے، بس جسم سے روح نکلنے کی دیر ہے آپ اُن سب سے جاکر ملاقات کریں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی لاڈلی بیوی ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد رحمۃ للعالمین، سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اس شادی میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سہیلی حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں، فرماتی ہیں۔
اس وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیافت کے لئے دودھ پیش کیا گیا۔ آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیالہ سے تھوڑا سا دودھ پیا اور پھر پیالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھادیا۔ وہ شرمانے لگیں، میں نے کہا: ’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطیہ واپس نہ کرو‘‘۔ پھر انہوں نے شرماتے شرماتے لے لیا اور ذرا سا پی کر رکھ دیا۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی سہیلیوں کو دو‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم کو اشتہا نہیں‘‘۔ فرمایا: ’’جھوٹ نہ بولو، آدمی کا ایک جھوٹ لکھا جاتا ہے‘‘۔ اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوگئی۔ یہ شوال کا مہینہ اور سن ہجری کا دوسرا سال تھا۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب میکے سے رخصت ہوکر حرم نبوی میں رونق افروز ہوئیں تو رہائش کے لئے آپ کو جو حجرہ ملا، وہ مسجد نبوی سے متصل تھا اس گھر کا دروازہ بجانب مسجد تھا اور ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا جس گھر میں مکین تھیں اس کا دروازہ بجانب آل عثمان تھا اس وقت تک صرف دو ہی حجرے تعمیر ہوئے تھے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں صاحبزادیاں سیدہ حضرت ام کلثوم اور سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہتی تھیں۔
جس حجرہ میں دنیا و آخرت کی زوجہ رسول اکرم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قیام پذیر تھیں، اس کی لمبائی چوڑائی چند ذرائع پر محیط صرف ایک کمرہ کی صورت میں تھا، دیواریں خام اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بناکر اوپر گارا لگادیا گیا تھا، چھت بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں سے بنائی گئی تھی، بارش سے محفوظ رکھنے کے لئے اس چھت کے اوپر کمبل ڈال دیئے گئے تھے اور دروازے کو پردے کے لئے ایک کمبل سے ڈھانپ دیا گیا تھا اس سے متصل ایک بالا خانہ تھا جسے مشربہ کہتے تھے۔
گھر کا کل اثاثہ ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ جس میں چھال بھری تھی، آٹا اور کھجور رکھنے کے لئے ایک دو برتن، پانی کا ایک برتن اور پانی پینے کے لئے پیالہ سے زیادہ نہ تھا، کئی کئی راتیں گھر میں چراغ نہیں جلتا تھاتھوڑی دیر کے بعد رحمۃ للعالمین، سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اس شادی میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سہیلی حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں، فرماتی ہیں:
اس وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیافت کے لئے دودھ پیش کیا گیا۔ آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیالہ سے تھوڑا سا دودھ پیا اور پھر پیالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھادیا۔ وہ شرمانے لگیں، میں نے کہا: ’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطیہ واپس نہ کرو‘‘۔ پھر انہوں نے شرماتے شرماتے لے لیا اور ذرا سا پی کر رکھ دیا۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی سہیلیوں کو دو‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم کو اشتہا نہیں‘‘۔ فرمایا: ’’جھوٹ نہ بولو، آدمی کا ایک جھوٹ لکھا جاتا ہے‘‘۔ اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوگئی۔ یہ شوال کا مہینہ اور سن ہجری کا دوسرا سال تھا۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب میکے سے رخصت ہوکر حرم نبوی میں رونق افروز ہوئیں تو رہائش کے لئے آپ کو جو حجرہ ملا، وہ مسجد نبوی سے متصل تھا اس گھر کا دروازہ بجانب مسجد تھا اور ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا جس گھر میں مکین تھیں اس کا دروازہ بجانب آل عثمان تھا اس وقت تک صرف دو ہی حجرے تعمیر ہوئے تھے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں صاحبزادیاں سیدہ حضرت ام کلثوم اور سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہتی تھیں۔