بھارت میں سکھوں کے خلاف ماورائے عدالت قتل کی تاریخ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بے نقاب
بھارت میں سکھوں کے خلاف ماورائے عدالت قتل کی تاریخ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بے نقاب
بھارت میں سکھ برادری کے خلاف ریاستی اداروں کے مبینہ مظالم اور ماورائے عدالت قتل کی ایک طویل اور تلخ تاریخ ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ بھارت کے جمہوری چہرے پر بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق 1984 میں سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی سمیت بھارت بھر میں سکھ مخالف فسادات میں ہزاروں سکھوں کو قتل کیا گیا۔ ہونڈھ چِلر (ہریانہ) میں 32 سکھوں کا منظم قتل اس سلسلے کا ایک نمایاں واقعہ تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس کے مطابق 1984 سے 1995 کے دوران بھارتی سیکیورٹی فورسز نے پنجاب میں ہزاروں سکھوں کو اغوا، لاپتہ اور ماورائے عدالت قتل کیا۔ 1995 میں انسانی حقوق کے معروف کارکن جسونت سنگھ خالرا کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا۔
2000 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے چٹّی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کو قتل کیا گیا، جس کا الزام بھی بھارتی ریاستی اداروں پر عائد کیا گیا۔
دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے بعد وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کھل کر بھارت پر الزام لگایا، جس نے بین الاقوامی سطح پر نئی دہلی کو سخت سفارتی دباؤ میں ڈال دیا۔
اسی سال رائٹرز نے انکشاف کیا کہ امریکا میں سکھ کارکن گرپتونت سنگھ پنّو کے قتل کی بھارتی سازش کو امریکی اداروں نے ناکام بنا دیا، اور بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کے افسران کو اس سازش میں ملوث قرار دیا گیا۔
ماہرین کے مطابق یہ واقعات بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص سکھوں، کے خلاف ریاستی پالیسیوں کے تسلسل کو ظاہر کرتے ہیں، جو عالمی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔