بلوچستان میں گورننس پر 15سے 20سال پہلے کام ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے ،وزیراعلیٰ
کوئٹہ (ویب ڈیسک )وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ بیرونی ایجنڈے پر کاربند رہنے والے چند لوگ کبھی خوش نہیں ہوںگے وہ ناراض رہ کربلوچستان کے حالات خراب کرنے کی کوشش کرتے رہیںگے ،صوبے میںبلوچوں کی بہت بڑی آبادی بیرون ملک مقیم ہے جوصوبے کے ساتھ ناانصافیوں پر ناراض ہیں عمران خان ماضی کی ذمہ داری نہیں لے سکتے البتہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ ناانصافی پرناراض لوگ آئیں اور بیٹھ کر بات کریں عمران خان کی توجہ بھی یہی لوگ ہیں صوبے میں فنانشل ڈسپلن، پلاننگ اسٹریٹجی، اس کی مانیٹرنگ اور عملدرآمد پر 15سے 20سال پہلے توجہ دی جاتی تو آج بلوچستان کے حالات مختلف ہوتے لیکن بدقسمتی سے یہاں ہمیشہ انفرادی کام ہوئے اجتماعی کام کو کسی نے ذہین میں نہیں رکھا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو دئےے گئے انٹرویو میں کیا۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہاکہ وزیراعظم کا دورہ گوادر بڑا اچھا رہا حالیہ وفاقی بجٹ پاس کرنے کے بعد وزیراعظم کا پہلا دورہ ہے ،کچھ عرصے سے وزیراعظم عمران خان ،بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتیں بلوچستان کو ترجیح میں شامل کئے ہوئے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ ماضی میں کسی نے ترجیح نہیں دی لیکن اس بار وہ ترجیح مختلف ہے چند صوبائی پارٹیز یا ان کے لیڈرز کو اعتماد میں لیکر بلوچستان سے متعلق جو پالیسی بنائی جاتی تھی پھر نہ تو دیکھا جاتاتھا کہ قابل عمل ہے یا نہیں پھر وفاق اور ان پارٹیوں کا زیادہ فوکس اپنی ترجیحات رہے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک پارٹنر کی حیثیت سے رہے ،انہوں نے کہاکہ پہلی دفعہ عمران خان اتحادی کی حیثیت سے بڑے اچھے انداز میں ترقیاتی کام اور چیزوں کو ایڈریس کیاجارہاہے بلکہ ایک اسٹریٹجی کے تحت کام کیاجارہاہے جس میں تعلیم ،روڈ،مسائل پر ترجیح دی جارہی ہے ،عمران خان نے ایک چیز ریلائز کی ہے کہ بلوچستان میں تمام تر صورتحال کے باوجود بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ہم سے صرف اس لئے ناراض ہے کہ ہم نے ان کیلئے کچھ نہیں کیاہے یہ انتہائی اہم وجہ ہے انہوں نے کہاکہ ہم جب اپنے حلقوں میں کام نہیں کرتے تو لوگوں کا رویہ دیکھنے والا ہوتاہے بلوچستان کا وہ حصہ جہاں نہ روڈ ہو ناپانی ہو نہ کنکٹیوٹی ہو ایسے میں عمران خان کی سوچ مثبت ہے کیٹگرائزیشن دیکھیں ناراض بلوچ بھی بہت ہے کچھ توایسے لوگ ہیں جنہوں نے ناراض رہنا ہے خود کبھی خوش نہیں ہونا ان کاایجنڈا صرف یہ ہے کہ کسی پالیسی کے تحت بیرون ملک میں اس پر کام کرناہے اور جب تک وہی پالیسی ان کی رہے گی وہ بلوچستان میں حالات کو خراب کرینگے لیکن ایک بہت بڑا طبقہ بلوچستان اور پاکستان سے باہر اور بلوچستان کے اندر ایسا ہے جو یہ محسوس کرتاہے کہ ہم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا غم وغصہ ہے ،عمران خان کا سب سے زیادہ فوکس اس آبادی پر ہے جو بلوچستان اور ملک سے باہر ہے جو اپنے احساس شیئر کرتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی کام نہیں ہورہا جام کمال خان نے کہاکہ کچھ لوگ جو باقاعدہ بلوچستان کو ڈی سٹیبلائز کرنے کیلئے تحریکوں میں شامل رہے ہیں وہ مختلف کیٹگری ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو عام آبادی ہے بلوچستان کی بلوچ آبادی بیرون ملک بہت بڑی آبادی ہے اور ہمارے بلوچ علیحدگی پسند انہی کی اسٹرینتھ پر باہر سے بھی کھیلتے ہیں ،ہمیں ایک بات بلکل واضح پتہ ہے کہ بہت سارے لوگ انتہاءکے اقدامات میں ملوث رہے ہیں بہت سے لوگ جنہوں نے اپنی رائے قائم کی ہے کہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی بہت عرصے سے جاری ہے ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے سیاسی نقطہ نظر کے ذریعے ایسا پیغام مرتب کرے جیسے کہ عمران خان نے بھی کہاکہ ماضی میں جو ہوا اس کی ذمہ داری یقینی طورپر عمران خان تو نہیں لے سکتے لیکن ان کے عملی کام اس بات کااشارہ ہے کہ آپ ابھی آئیں بات کرے ایسے لوگ جن کانقطہ نظرہے کہ کام نہ ہونے اور پسماندگی سے بلوچستان کے لوگ متاثر ہیں میرے خیال سے وہ بہت بڑی تعداد ہے ۔جام کمال خان نے کہاکہ بحیثیت فرزندبلوچستان تین سالہ کارکردگی،علم اورتجربے کی بنیاد پر ایک بات بتاسکتاہوں کہ بلوچستان کے اندرہمارے گورننس کی وجہ سے 60فیصد مسائل اگر آئے ہیں لوگوں کے حوالے سے تو ہماری گورننس کی وجہ سے آئے ہیں ،ہم نے بلوچستان میں گورننس کا جو ماڈل رکھا وہ بڑا ہی سینٹرک ،انڈیپنڈنٹ اور سلف انٹرسٹ بیسڈ تھا سوائے چند لوگوں کے ،اجتماعی طورپر نہیں البتہ انفرادی طورپر سب نے کام کئے ہیں ہرکسی نے اپنے حلقے میں کام کئے ہیں لیکن بلوچستان کو کبھی کسی نے ذہین میں نہیں رکھا اور اگر رکھا بھی توکبھی کوئی ایسا میکنزم نہیں بنایاکہ یہ جو ہم پی ایس ڈی پی ،ترقیاتی کام ،گورننس ،میتڈولوجی ،ڈسپلن ،رولز ریگولیشن بنا رہے ہیں بلوچستان کو اس میں کس کی ضروریات اور ہمیں کیاکرناچاہےے ہم تین چیزوں کو ترجیح دے رہے ہیں ،فنانشل ڈسپلن ،پلاننگ اسٹریٹجی ،اس کی مانیٹرنگ اور اس پرعملدرآمد تین کام جتنے صحیح ہوںگے تب جا کر بلوچستان کے ایک عام آدمی کو روڈ،صحت،سہولت معیاری کام میسر ہوگا اگر ان چیزوں پر ترجیح نہیں دی جائےگی تو ہمیں پتہ نہیں ہوگاکہ بجٹ کہاں خرچ ہورہاہے ،بلوچستان میں گورننس پر 15سے 20سال پہلے کام ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے ۔