استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم الجھن کا شکار ہے، شاہ محمود قریشی

0 143

ملتان (آن لائن )وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم الجھن کا شکار ہے، مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز اور شہباز شریف کا الگ الگ مؤقف ہے ، نواز شریف کی واپسی کیلیے قانونی پیچیدگیوں کو حل کیا جا رہا ہے ،پی ٹی آئی اور عمران خان ایک حقیقت بن چکے ہیں، این آر او اور کرپشن کے سوا تمام معاملات پر اپوزیشن کیساتھ بات کیلیے تیار ہیں ، دہشتگردی کے حوالے سے بھارت پاکستان کے ڈوزئیر کا جواب دنیا کو نہیں دے سکا۔

ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے، تقریبات میں احتیاط نہیں ہورہی، لوگ معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں تاہم حالات غیرمعمولی ہیں، میری ہر گھرانے اور ذی شعور شہری سے گزارش ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کا خود تحفظ کرنا ہے اس میں سختی نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ ایک رضاکارانہ فیصلہ ہے جو آ پ نے خود کرنا ہے۔انہوں نے درخواست کی کہ ایس او پیز پر عمل کریں، معمول کی سرگرمیوں کو محدود کردیں

جبکہ غیرضروری سرگرمیوں کو مؤخر کردیں تاہم کچھ ایسی چیزیں ہیں جو آپ مؤخر نہیں کرسکتے اور وہ کرنا لازمی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری اپیل ہوگی کہ ا?پ اپنے فیصلوں پر نظرثانی فرمائیں اور میڈیا ا?گاہی میں اپنا کردار ادا کرے جس طرح پہلے کیا تھا اور وہ کافی مؤثر تھا۔انہوں نے کہا کہ میری رائے میں جہاں جلسہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور سیاسی قیادت کو انسانی جانوں کی قدر کرنی چاہیے تھی وہاں کنٹینرز کی ضرورت نہیں تھی اور میں نے یہ بات کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں بھی رکھی۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو جلسہ نہیں کرنا چاہیے تھا جبکہ انتظامیہ کو کنٹینر نہیں لگانے چاہیے تھے کیونکہ جو تعداد تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بڑے شوق سے جاتے اور قلعہ کہنہ قاسم باغ میں جلسہ کرلیتے، میری رائے میں اس کی اجازت ہونی چاہیے تھی اور میں اب بھی یہی کہوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے متفقہ فیصلہ کیا ہے
کہ ہم نے ان کی سرگرمیوں کو زبردستی نہیں روکنا، تلقین کرنی ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی ملک میں صحت کی ہنگامی صورتحال نافذ ہے، یا تو آپ یہ کہیں کہ ڈاکٹرز اور ماہرین، این سی او سی کی کمیٹی میں مشاورت کے بعد جو ہدایات دی جاتی ہیں وہ غلط ہے، سندھ میں آپ جو اسمارٹ لاک ڈاؤن کر رہے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، اگر نہیں ہے تو پھر یہ منطق سمجھ آتی ہے کہ آپ اسے تسلیم نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اسے تسلیم کرتے ہیں اور اس کے باوجود سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو یہ دوہرا معیار ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں اس میں آپ کا اور ملک کا بھی فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عمل ہوتا رہے گا اور ہم نے سیاسی انداز میں آگے بڑھنا ہے،

یہاں کچھ لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مجھے محدود کیا گیا اور پکڑوایا گیا لیکن حقائق کبھی چھپتے نہیں ہیں اور اصلیت سامنے آجائے گی۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میری سوچ کبھی غیرسیاسی و غیرجمہوری نہیں رہی اور میں اطمینان اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی کی پکڑ دھکڑ یا کسی کی تضحیک میں کسی کو اشارہ کیا ہے، نہ یہ میری سوچ ہے اور نہ ہی یہ ملتان کی روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی سیاسی ضروریات ہوتی ہیں اور اسی کو سامنے رکھتے ہوئے بیان بازی کی جاتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹوں کی جانب سے کیے جانے والے دعوے سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر وہ الزام لگانا چاہتے ہیں تو میں روک نہیں سکتا

لیکن یہ حقائق پر مبنی بات نہیں ہے تاہم اگر وہ ثابت کرسکتے ہیں تو کریں۔انہوں نے کہا کہ میں ان کے خلاف کوئی ایسی بات نہیں کہوں گا لیکن اگر انہوں نے ایسی بات کی ہے تو یہ نامناسب بات ہے۔ملتان جلسے میں رکاوٹوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت میں ملک میں نہیں تھا تاہم میں سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم نے جو جلسہ کیا ہے وہ برملا ناکام تھا اور اگر یہ اسٹیڈیم میں چلے جاتے تو یہ بے نقاب ہوجاتے، ان کے پاور شو کی حقیقت لوگوں کے سامنے عیاں ہوجاتی تاہم میں سمجھتا ہوں جس نے بھی کیا اس نے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ قیادت کی جانب سے بھی واضح ہدایت تھی کہ کوئی تشدد، لاٹھی چارج یا اس قسم کی کارروائی نہیں ہونی۔ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے یا گرفتاریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا ہوا کہ تو غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔شہباز شریف کی جانب سے قومی مکالمے کے مطالبے پر انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت میں فیصلہ کرلیں کیونکہ مریم نواز کا ایک مؤقف ہے اور شہباز شریف جو مؤقف اپنا رہے ہیں وہ اس کے برعکس دکھائی دے رہا، لہٰذا وہ فیصلہ کریں کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اندر بھی الجھن (کنفوژن ) ہے

کہ استعفیٰ دینے ہیں یا نہیں دینے، اگر آپ نے استعفے دینے ہیں تو آپ دے دیں کس نے روکا ہے، 8 دسمبر کو آپ کی قیادت کا اجلاس ہے اس میں فیصلہ کریں اور استعفے دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر فطری، وقتی الائنس ہے، ان میں کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے یہ بچاؤ کی کوشش ہے اور یہ پڑاؤ بچاؤ کے لیے ہے جو دیرپا نہیں ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان طویل جدوجہد کے بعد عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں، قلعہ کہنہ قاسم باغ اور مینار پاکستان پر عمران خان کے جلسے عوام نے دیکھے تھے اور حقائق کے مطابق پی ٹی آئی اور عمران خان ایک سیاسی حقیقت بن چکے ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے برطانوی حکام سے تبادلہ خیال ہوا ہے، نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے قانونی پیچیدگیوں کو حل کیا جا رہا ہے۔شاہ محمود قریشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت ٹھیک ہے، اب انہیں اخلاقی طور پر واپس آ جانا چاہیے۔

اپوزیشن جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 2 مرتبہ دعوت دی گئی لیکن پی ڈی ایم قیادت نہیں آئی، کورونا کی صورتحال پر بلایا گیا تو بھی پی ڈی ایم قیادت نہیں آئی۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم قیادت سے این آر او اور کرپشن کی شرط کے علاوہ تمام ایشوز پر مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ او آئی سی کی قرارداد میں مشترکہ طور پر ہندوستان کی کشمیر پالیسی مسترد کی گئی جب کہ خود ہندوستان میں بھی کشمیر کی پالیسی پر اتفاق رائے نہیں رہا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی کے 47 ویں اجلاس میں 57 ملکوں نے بابری مسجد کی شہادت کی مذمت کی۔ان کا کہنا تھا

کہ آج ہندوستان دفاعی پوزیشن میں چلا گیا ہے، ہندوستان کلبھوشن جادھو کا کیس عالمی عدالت میں لے کر گیا لیکن اسے ناکامی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ آئی سی جے کے فیصلے کے مطابق بھارت کو 2 مرتبہ قونصلر رسائی دی گئی، تیسری بار بھارت یہ سہولت نہیں لے رہا۔اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں جمع کرائے گئے ڈوزیئر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کے ڈوزئیر کا جواب دنیا کو نہیں دے سکا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا

کہ او آئی سی کے اجلاس میں فلسطین پر واضح مؤقف آیا ہے، پاکستان میں بھی اسرائیل کے حوالے سے قیاس آرائیاں تھیں لیکن اب انہیں دم توڑ دینا چاہیے۔ نو منتخب امریکی صدر سے متعلق سوال پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا میری رائے میں بائیڈن کی انتظامیہ کی سوچ ٹرمپ انتظامیہ سے مختلف ہے، بائیڈن انتظامیہ تصادم کے بجائے بلکہ مذاکرات کو ترجیح دے گی۔افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کے حوالے سے سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارڈر کو محفوظ کرنے کے لیے باڑ لگائی ہے، ہم چاہ رہے ہیں کہ افغان امن عمل آگے بڑھے، اگر افغانستان پاکستان کا تعاون چاہتا ہے تو ہماری حکمت عملی کو سمجھے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.