سالِ نو کی پہلی ادبی تقریب سرزمینِ بلوچستان تہذیبی و ثقافتی اعتبار

0 105

سے مردم خیز خطہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں بیک وقت چارتہذیبی ثقافتیں پروان چڑھیں اور بلوچی حمّیت کی باز گشت دور دور پہنچی ، اِسی طرح یہاں کا صحافتی اقدار کی ترویج میں صحافی برادری نے کلیدی کردار ادا کیا جن میں ایک روشن و تابندہ نام فیاض حسن سجاد کا بھی ہے گزشتہ
دنوں “سٹی ہال” میں فیاض حسن سجاد پر لکھی گئی کی رونمائی منعقد ہوئی جس میں سیاسی،سماجی شخصیات سابق سینیٹر ، سابق وفاقی وصوبائی وزرائ ، قونصل جنرل افغانستان،ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے زرکت کی مقررین نے کہا ہے کہ مرحوم ممتازبزرگ صحافی فیاض حسن سجاد کی صحافتی و دینی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے عوامی مسائل حکومتی ایوانوں تک پہنچاتے ہوئے عملی طور پر فتنہ قادیانیت کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھا ، سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ، سابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ، سابق وفاقی وزیرمیر ہمایوں عزیز کرد، امارات اسلامیہ افغانستان کے قونصل جنرل مولانا مفتی گل حسن ، ڈائریکٹرجنرل خانہ فرہنگ ایران ابو الحسن میری،سابق صوبائی وزیر طاہر محمود خان،عوامی نیشنل پارٹی کےمرکزی جوائنٹ سیکرٹری سرداررشید خان ناصر ،سابق میئر کوئٹہ عبدالرحیم کاکڑ ،بی این پی کے رہنماغلام نبی مری ، صوبائی خطیب مولانا انوار الحق حقانی،مسلم لیگ (ن) کے رہنمائ نسیم الرحمن ملا خیل، سابق ناظم میر محمد اسلم رند،سابق ناظم سرور بازئی، عالمی مجلس ختم نبوت کے ناظم تبلیغ مولانا مفتی محمد احمدخان ،ممتاز صحافی ظاہر خان ناصر ،روزنامہ جنگ کے اسٹاف رپورٹر محمد ارسلان فیاض، ایگری کلچر کونسل کے بورڈ اف گورنرز کے رکن چیئرمین یوسف نوتیزئی،کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری چنگیز حئی بلوچ و دیگر نےممتاز صحافی محمد ارسلان فیاض کی جانب سے مرتب کر دہ کتاب (مجاہد ختم نبوت بابائے صحافت حاجی فیاض حسن سجاد مرحوم )کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ا س موقع پرسابق مشیر وزیر اعلی بلوچستان ملک عادل خان بازئی،پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماانجینئر ہادی عسکری،شہید باز محمد کاکڑ فاﺅنڈیشن کے چیئر مین ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ،کوئٹہ چیمبر اف سمال ٹریڈر کے صدر ولی خان نورزئی،ممتاز عالم دین پیر سید نقیب اللہ اغا،ممتاز مذہبی اسکالرسردار اقبال خلجی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ترجمان طارق جعفری،ڈیری ایسوسی ایشن کے صدرالطاف حسین گجر،ممتاز قانون دان سید سلیم رضا ایڈوکیٹ،سنیئر صحافی حاجی محمد
اجمل،مولانا قاری عبدالحفیظ،شاہ محمد عمرانی ،مولانا محمد اویس ،ممتاز شاعرشیخ فرید، ایوان صنعت تجارت کے سابق سنیئر نائب صدرصلاح الدین خلجی سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی مقررین نے کہا کہ مرحوم فیاض حسن سجاد بلوچستان کی قبائلی روایات سے بخوبی اگاہ تھے اور اس کو مدنظررکھ کر
رپورٹنگ کرتے ان کے ہمارے بزرگوں سے دیرینہ مراسم تھے نوجوان صحافیوں کو فیاض حسن سجاد کی طرز پر محنت و رپورٹنگ کرنی چاہئے ان کا مزید کہنا تھا کہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس کا تحفظ ضروری ہے لیکن ساتھ ہی حضور کی
تعلیمات پر بھی عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث دنیا بھر میں مسلمان روبہ زوال ہیں جس کی بڑی مثال فلسطین پر اسرائیلی مظالم ہیں جس پر اسلامی ممالک خاموش ہیں اور رسمی طور پر مذمتی بیانات جاری کرتے ہیںتقریب میں ممتاز معالج ڈاکٹر عظیم اللہ
اصف گورایا،سابق اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل ملک عظیم ایڈووکیٹ،سماجی رہنما تنویر خان یوسفزئی،چیف فائر افسیر میٹروپولیٹن کارپوریشن عبدالحق اچکزئی، چیف ارکیٹیکٹ میٹروپولیٹن کارپوریشن حاجی اسحاق مینگل،مولانا عطاالرحمن رحیمی،کچلاک ویلفیئر سوسائٹی کے چیف ملک رشید کاکڑ،عبدالوحید یوسفزئی ایڈووکیٹ ،صحافی فرخ شہزاد،ارشد گجر،ڈپٹی ڈائریکٹر بیت المال ملک
بلال،پرنسپل کیمبرج اسکول ملک شریف ،بلوچستان ریفارمز کے صدر ملک عرفان سمیت کثیر تعداد میں قبائلی سیاسی سماجی عمائدین،وکلا، ڈاکٹرز،صحافیوں و مذہبی حلقے کے رہنماﺅں نے شرکت کی۔دنیا بھر میں صحافت کو اس کے حقیقی جوہر کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ ایک عظیم پیشہ ہے تاہم، بہت سے معاشروں میں صحافت یا تو
متعصب ہونے یا کچھ خاص مقاصد کے لیے مشق کرنے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو چکی ہے، ایسے معاشروں میں اگر کوئی سچی صحافت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دھمکیاں آن لائن یا ذاتی طور پر اس کا پیچھا کریں گی جو کہ آج کل بڑی حد تک پاکستانی معاشرے کے پس منظر میں ایک عام رجحان بن چکا ہے۔ دوسری طرف صحافیوں کو اصل زمینی حقائق سے دور رکھنے کی روایت نے ملک کی صحافت کو دن بدن
گھٹا ٹوپ اندھیروں کی جانب دھکیلنا شروع کیا ہے، رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں معاملہ اس سے بھی بدتر ہے جہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میڈیا ایک شجر ممنوعہ ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم بلوچستان کے موجودہ صحافتی پس منظر پر نظر دوڑائیں، ہمیں بلوچستان میں صحافت کی
مختصر تاریخ جاننے کی اشد ضرورت ہے۔کسی بھی معاشرے میں دو یا دو سے زیادہ انسانوں کے درمیان اشاروں، زبانی یا تحریری طور پر ہونے والا رابطہ اہم کردار ادا کرتا ہے، بلوچ تاریخ میں زبانی رابطے کی ایک مضبوط روایت پہلے سے ہی موجود تھی جسے ”حال احوال“ کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ”روایتی حال احوال
ایک قسم کا خبرنامہ ہے جو ایک شخص جو کہیں سے آتا ہے اور راستے میں جو کچھ دیکھتا یا سنتا ہے اسے دوسروں کو سناتا ہے“ ، یہی حال احوال بلوچوں میں صحافت کا ایک پرانا ذریعہ تھا جس پر وہ صدیوں سے زبانی طور پر عمل پیرا تھے، جب صحافت تحریری شکل میں بدل گئی اور پریس برصغیر (پھر 19 ویں صدی میں بلوچستان) میں قائم ہوا تو روایتی حال احوال کی جڑیں کمزور پڑ گئیں اور جدید میڈیا کو اپنا لیا گیا۔فیاض حسن سجاد نے بلوچستان میں صحافت کی لاج رکھی وہ تاعمر زرد صحافت کے خلاف صف آراءرہے اور دمِ آخر تک حق و سچ پر ڈٹے رہے۔آسماں تیری لحد پہ شبنم فشانی کرے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.