حوادثِ زمانہ—آزمائش یا تنبیہ؟
چند دن پہلے بنوں میں پیش آنے والا ہولناک سانحہ، جس نے ہر دردمند دل کو خون کے آنسو رلانے پر مجبور کر دیا۔ کئی معصوم جانیں راہِ عدم کو روانہ ہوئیں، کئی گھر ماتم کدہ بن گئے، اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ ایسے حادثات اگر ایک طرف انسانی ہمدردی کے جذبات کو جھنجھوڑتے ہیں، تو دوسری طرف دینی نقطۂ نظر سے ان کے محرکات اور اسباب پر غور کرنا بھی ضروری قرار دیتا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوتا ہے، اور حادثات و آفات کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بعض اوقات یہ آزمائش کے طور پر آتے ہیں، جبکہ بعض اوقات یہ گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير”
(الشوریٰ: 30)
ترجمہ: “اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کے اعمال کا نتیجہ ہے، اور (اللہ) بہت سے گناہوں کو معاف بھی کر دیتا ہے۔”
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ بعض مصائب ہمارے اعمالِ بد کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ان کا مقصد ہمیں جھنجھوڑنا، بیدار کرنا، اور رجوع الی اللّٰہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
“إِذا ظهر الزنا والربا في قرية، فقد أحلوا بأنفسهم عذاب الله”
(مستدرک حاکم: 2262)
ترجمہ: “جب کسی بستی میں زنا اور سود عام ہو جاتا ہے تو اس کے رہنے والوں نے خود پر اللہ کے عذاب کو لازم کر لیا ہوتا ہے۔”
لہذا یہ کہنا کہ حادثات و آفات صرف طبعی عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ان کا انسان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں، درحقیقت قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات سے انکار کے مترادف ہے۔ کیا قومِ نوح، قومِ عاد، اور قومِ لوط پر آنے والا عذاب کسی سائنسی یا جغرافیائی عمل کا نتیجہ تھا؟ ہرگز نہیں، بلکہ ان کی نافرمانیوں کا ہی شاخسانہ تھا۔
یہ کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ ہر حادثہ یا ہر فرد کی موت کسی خاص گناہ کا نتیجہ ہوتا ہے، بلکہ عام طور پر جب معاشرہ اجتماعی طور پر اللہ کے احکام سے روگردانی کرتا ہے، تو آزمائشوں کا نزول ہوتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو بنوں سے تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین مولانا عبدالغفار قریشی صاحب نے بیان فرمایا، اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس پر اعتراض کیا جائے۔
البتہ افسوسناک امر یہ ہے کہ دین بیزار طبقہ، جو ہمیشہ مذہبی شخصیات اور اسلامی تعلیمات کو ہدفِ تنقید بناتا ہے، وہ یہاں بھی پیچھے نہیں رہے۔ اگر کوئی عالمِ دین لوگوں کو رجوع الی اللہ اور گناہوں سے توبہ کی دعوت دے رہا ہے تو اس میں برہمی کی کیا بات ہے؟ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حادثات کے دیگر اسباب ہوتے ہیں، تو کیا قرآن و حدیث کے اصولوں کی روشنی میں گناہوں کو ایک ممکنہ سبب سمجھنا غلط ہو جائے گا؟
درحقیقت، دین کے دشمنوں کا اصل مسئلہ اسلامی تعلیمات سے بغض ہے، اور اسی بنا پر وہ ہر دینی مؤقف پر اعتراض جڑ دیتے ہیں۔ لیکن جو شخص قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرے، اسے کسی بھی دباؤ کے تحت اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر آزمائش کو اپنے لیے تنبیہ سمجھیں، اللہ کی طرف رجوع کریں، استغفار کریں، اور اپنے اعمال کا محاسبہ کریں۔ کیونکہ اگر ہم اس حکمت کو نہ سمجھے تو شاید آئندہ آنے والے حالات اس سے بھی زیادہ سخت ہو۔
یہ وقت ہے کہ ہم غفلت کی چادر اتار کر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں۔ حادثات اور آفات محض اتفاقات نہیں بلکہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں، جو ہمیں ہمارے طرزِ زندگی پر غور کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر ہم ان سانحات سے سبق نہیں سیکھیں گے، اپنی اصلاح نہیں کریں گے، اور گناہوں سے توبہ کر کے نیکی کی راہ اختیار نہیں کریں گے، تو بعید نہیں کہ آزمائشیں اس سے بھی زیادہ شدت اختیار کر لیں۔
لہذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالیں، اور معاشرے میں نیکی کے فروغ اور برائی کے خاتمے کی جدوجہد کریں۔ اگر ہم نے آج بھی اپنی روش نہ بدلی تو تاریخ ہمیں محض ایک گزرے ہوئے سبق کے طور پر یاد رکھے گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے، عمل کرنے، اور آزمائشوں سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔