اسلامی تہذیب میں جمود کے اسباب!!!
ای میل
اسلامی تہذیب میں جمود موجودہ زمانے میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر غور کریں تو فکر کے کئی ایک در وا ہو تے ہیں۔ہو سکتا ہے ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات سے آگاہ ہی نہ ہوں کہ امت کسی جمود کا شکار ہے۔مگر آج لمحہ موجود میں امت مسلمہ کو جن حالات اور چیلنجز کا سا منا ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے شاید کوئی شخص اس بات کا انکار کرے کہ امت مسلمہ بری طرح سے جمود کا شکار نہیں ہے۔
اس وقت امت کو جو مسائل در پیش ہیں ان کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔مثلا; امت کو اس وقت الحاد کا چیلنج ہے دہشت گردی اور فرقہ واریت کا چیلنج ہے’،انتہا پسندی کا چیلنج”فکری جمود کاچیلنج’فہم دین اورتعبیردین میں انحرافات’اخلاقی انحطاط آور سیاسی وتمدنی افکار کا افلاس’ قیادت کابحران اور ترقی کے تیز رفتار دوڑ میں اقوام عالم سے پیچھے رہ جانےکا چیلنج،، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی پیدا کردہ فکری’سماجی اور اخلاقی تحدیات’تہذیبی مرعوبیت خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور خواتین کی سماجی حثیت کا تعین الغرض مسلم معاشروں میں فکری تحدیات کا ایک سیلاب رستہ خیز موجود ہےجس میں آخری وحی کے حاملین کی حثیت سےاہل اسلام معاصر تاریخ میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمہ داری عائد کی ہےکہ وہ مستقبل میں عالم انسانیت کی رہنمائی اور داد رسی کا فریضہ سر انجام دیں اگر آج اس فریضہ منصبی کے باوجود مسلمان تاریخ کے حاشیے پر کمزور ترین نظر آتے ہیں تواس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے اپنے بارے میں غلط فہمیوں کے اسیر ہیں بجائے اسکے وہ خود کو خیر امت یعنی زندگی و سماجیات اور حیات بخش تعمیر نو کی حثیت سے دیکھتے جس پر پوری انسانیت کے مستقبل کا انحصار ہو اور جس کے ذمہ اللہ نے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اور زمین کے اوپر الہامی عدل کے قیام کا فریضہ عائد کیا ہو مسلمانوں نے اس مقصد کو چھوڑا اورصدیوں سے اپنے مسائل میں الجھ کر رہ گئےاب وہ تمام امور پر خالص کمزور مادی نکتہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں
ایسی امت جس کو لوگوں کی بھلائی کے لئے نکالا گیا تھا آج وہ خود اس حال میں ہے کہ ذاتی مفاد سے آگے دیکھنے کی روادار نہیں اس کی نگاہ قومی امور اور ملی مفاد پر آگے نہیں بڑھتی_ جس امت کو اللہ رب العزت نے پوری دنیا کی سیادت و رہبری کے لئے مبعوث فر ما یا تھا اس امت کا آج یہ حال ہےکہ وہ اپنی ہی پیدا کردہ غلط فہمیوں کے زیر اثر دنیا کو دارلکفراور دار السلام کی فقہی اصطلاحوں میں دیکھنے کی عادی ہے بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوا گویا اس مفروضہ دار الکفر سے اہل اسلام کو کچھ علاقہ نہیں _مقصد میں کامیاب ہو نے کے لئے ان با طل عناصر نے مسلمانوں کو قرآن مجید کی روح و ترقیاتی اپروچ اور اسلامی و عصری تعلیمات سے دور رکھنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اس لئے کہ وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک اسلامی معاشرے میں اسلامی تعلیمات و قوا نین عصری معنویت اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے مقدس شمار کئے جائیں گے اس وقت تک ہمارے ذہنی اہداف عملی جامہ نہیں پہن پائیں گے ۔جیسا کہ بر طا نیہ کے گذشتہ وزیر اعظم;گلیڈسٹن; نے قرآن مجید کو اہانت آمیز انداز میں میز پر ما رتے ہو ئے کہا : جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے درمیان موجود ہے اس وقت تک مسلم سر زمینوں کا بر طا نوی استعمار کے سا منے سر تسلیم خم کرکے کہتا ہے : جب قرآن اور مکہ ، عر بی اور اسلامی ممالک سے جدا ہو ں گے ےبھی ہم یہ دیکھ پائیں گے کہ مسلمان آہستہ آہستہ ہما ری تہذیب میں ڈھل ر ہے ہیں اور ہمارے مطیع و فر مانبردار بنتے جا رہے ہیں ۔
اس با ت میں کو ئی شک نہیں کہ استعما ری سعی و کوشش اسلامی مملکتوں میں کا فی حد تک مو ثر ثا بت ہو چکی ہے اور موجودہ اسلامی معا شرے کے منا ظر و مظاہر اور اس کی دینی تعلیمات اور قرآنی نظام حیات سے اجنبیت اس بات پر واضح دلیل ہے ۔
[مسلمان مجموعی طور پر اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وحی کی روشنی میں جو فریضہ ان کو سونپا گیااس فریضہ کو انجام دیتے کی ذمہ دار اتنی بڑی تھی کہ وہ ہر وقت اپنی انکیھیں کھلی رکھنے اور دل و دماغ کو بیدار رکھنے کی ضرورت تھی اور اگر ایسا ہوا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ تاریخ پر امت کی گرفت ڈھیلی پڑتی مگر ہوا یوں کہ قرآن مجید سے اس راست رابطے کا کام طبقہ علما کے سپرد کر دیا گیااور علما اپنے پیدا کردہ التبا سات کے زیر اثر وحی سے مکمل دور ہوتے گئے۔آج ہم یہی نہیں جان پا رہے کہ کونسا چیلنج زیادہ بڑا ہے
پوری دنیا بحران کی زد میں ہے اور اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ امت مسلمہ جسے ان نازک لمحات میں انسا نیت کی نجات دہندہ کی حثیت سے سامنے آنا چاہیے تھا اپنے داخلی خلفشار میں گر فتار ہے ہم ایک بیزاراور اخلاق باختہ قوم کے طرح اس وقت شکنجہ میں پھنس گئے ہیں جس نے عالمگیریت کے نام پر پوری دنیا کوعملا ایک عالمگیر جہنم میں تبدیل کر دیا ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ عالم اسلام پر مستقبل کے سلسلے میں شدید مایوسی اور کشمکشکی فضا طاری ہےآج ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس بے سمت تہذیب کا اگلا قدم کہاں جا پڑے گااوراسکے اسرار و عواقب کیا ہوں گے
اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو تاریخ بتاتی ہے جو قومیں جمود کا شکار ہوئیں ان میں ارتقا ونشونما کے جراثیم مر گئے وہ رفتہ رفتہ صفحہ ہستی سے نابود ہوتیں گئیں خود مسلمان جب تک محنت کی ڈگر پر چلتے رہےکامیا بیاں ان کے قدم چومتی رہیں
مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے جدید عمرانی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں بھی اپنی ترجیحات کو جد ید اصولو ں سے ہم آہنگ کر نا ہو گاہمیں بھی جدوجہد کو اپنا شعار بنا نا ہو گا جب تک ہم آبا پرستی میں مشغول رہیں ہم اقوام عالم کی ترقی کی دوڑ میں شامل نہ ہو سکیں گے ہمیں اپنے وسائل کو جدید انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے ان سے استفادہ حاصل کر نا ہو گا ۔امت مسلمہ کو آگے بڑھنے اور اقوام عالم کی دوڈ میں شامل ہونے ‘اور جدید معاشرے میں جدید دنیا کے ہمقدم ہونے کے لیے اپنے نظام تعلیم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ہمیں ٹیکنالوجی کی میدان میں نئے تجربات کرنا ہوں گے، تحقیق کے میدان میں جھنڈے گاڑنا ہوں گے تاریخ گواہ ہے ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کبھی کمی نہیں رہی مگر سستی اور فارغ البالی اور نام نہاد خاندانی قدروں نے ہیروں کو مٹی می ملا دیا رفتار زمانہ کو سمجھتے ہوئے نئی تعلیمی حکمت عملی تر تیب دی جائے کالجوں یونیوسٹیوں میں جدید نظام تعلیم متعارف کرایا جائے طلبہ کو جدید تجربہ گاہیں فراہم کی جائیں ‘ ماضی پر ستی سے نجات دلائی جائے اگر آج یورپی اقوام ہم سے اگے ہیں تو یہی وجہ ہے کہ ان قوموں نےجد و جہد کو اپنا شعار بنایا ۔ہم اپنے اسلاف کے کار ناموں کو دیکھیں وہ جہاں کہیں بھی گئے انہوں نے حکمت کو اپنا متاع سمجھا مگر زوال کا آغاز ہونے کے بعد مسلمانوں کے ہاں سے سعی وعمل اور تسخیروجستجوکے اوصاف معدوم ہوتے گئےاور وہ دنیا میں نمونہ عبرت بن گئے۔
مسلمانو کو اپنے درخشاں ماضی کو اپنا حال بنانے کے لیے چاہیےکہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں۔اپنے نیم مردہ اجسام میں پھر سے اسلامی روح پھونکیں تاکہ پھر سے قلوب میں ایمان و حرارت پیدا ہواور پھر سے تسخیر جہاں کاخوابیدہ جذبہ بیدار ہو۔
اہل دل کو اس ضمن میں مایوسی نہیں بلکہ اج بھی امید ہےکہ:
عطامومن کوپھردرگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی’ذہن ہندی’نطق اعرابی