26 اور 51 سال کا نچوڑ 76 سال

0 108

تحریر: حافظ خلیل احمد سارنگزئی۔۔۔
سیاسی کالم کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے سے پڑھنے سے ہر دفعہ دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے سیاسی حالات حاضرہ اور سیاسی جائزہ لینے کے ارادے سے پہلے تازہ دم ہونےکیلئے تین چار کالم سیاسی پڑھتا ہوں تاکہ ذہن اس اسلوب کے رنگ میں رنگا جائے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ میں اپنی تحریر کا سخت ناقد ہوں اسی لیے میں اکثر کالم کوپہلے کئی بارخود پڑتا ہوں اور جب مطمئن ہوتا ہوں تو قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں نہیں تو پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں ۔ چنانچہ میں نے تین چار سیاسی تجزیاتی کالم لکھے۔اگر ان سے مطمئن ہوا تو صیح ورنہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک جو اکثر کالموں کے ساتھ کرتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ منزل تک پہنچنے کےلئے سفر کی صعوبتیں تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہیں اور میں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ میں سیاسی تجزیاتی کالم اپنے قارئین کےلیے ضرور لکھوں گا اور آج اسی نیت سے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں رمضان المبارک کے بابرکت آخری عشرہ میں ذکر و افکار سے فارغ ہوکر دعائوں کے بعد ہی چند الفاظ تحریر کئے ہیں ۔پہلے تحریر کا اور پھر اس کالم کے آئینے میں سماج کا چہرہ دیکھئے ۔۔
زندگی میں کامیابیاں بھی ہوتی ہیں اور ناکامیاں بھی، مگر وہ قومیں ترقی کرتی جواَپنا وجود طویل عرصے تک قائم رکھتی ہیں اور اُمید کے دامن سے وابستہ ہوکر اَپنے کارناموں پر فخر کرتی ہیں۔ اچھی باتوں کا سچا شعور اَور اُن کے ساتھ پختہ پیوستگی ہی اقوام اور اَفراد کو تروتازہ رَکھتے ہیں۔ مایوسی اور مسلسل بےاطمینانی میں غلطاں لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تو اعلیٰ روایات اور توقعات کا ایک مضبوط سلسلہ حیاتِ مستعار کو شاداب اور متحرک رکھتا ہے۔ سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور سچائیوں کے آفاقی نظام پر کامل یقین بنی نوع انسانی کی فلاح کا ضامن ہے۔ اِس ایقان میں ضعف پیدا ہونے سے معاشرے میں ابتری پھیلتی ہے اور مایوسیاں ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔ انسانی تہذیب کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن میں نیکی اور بھلائی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کا حکم متعدد بار آیا ہے۔
ہم پاکستانی جو بفضلِ خدا بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہیں اور اِس ارشادِ ربانی سے بخوبی واقف ہیں کہ خدا کی رحمت سے مایوس ہونا بہت بڑا گناہ ہے، اپنی سوچوں اور رَوزمرہ کے رویّوں میں کسی قدر مایوسی کا شکار دِکھائی دیتے ہیں۔ اِن کے چاروں طرف نعمتوں اور آسائشوں کا ایک سماں بندھا ہوا ہے اور اُن پر بےپایاں رحمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے اندر بہت ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں، ہم بالعموم جفاکش اور صاف دل ہیں اور اَپنے بھائیوں کے دکھ درد میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ہمارے محنت کشوں کی محنت اور صلاحیت سے شرقِ اوسط کے صحرا آباد ہوئے ہیں اور اُن کی معیشتوں میں استحکام آیا ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور دُوسرے اَن گنت ملکوں میں پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر اور تعلیمی ماہرین حیرت انگیز کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، جبکہ اُنکے نوجوان نشے کی حالت میں سڑکوں کے کنارے بےسُدھ پڑے رہتے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اِن خوبیوں کا ہمارے حکمراں ذکر تو کرتے ہیں، مگر اِن کی عظمتوں کا حقیقی معنوں میں اعتراف کم ہی کیا جاتا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ اِن کی لامحدود صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کا ایک مؤثر نظام صحیح معنوں میں آج تک قائم ہی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک غیریقینی صورتِ حال ہر سُو طاری ہے اور ہر آن ناگہانیوں کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔
اِس اداسی، بےیقینی اور ذہنی پژمردگی کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ خوبیوں کے اعتراف اور اُن پر فخر کرنے کا کلچر پیدا کیا جائے۔ غالباً ایک صدی تک انگریزوں کے غلام رہنے کا نفسیاتی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں میں زندہ قوموں کی اعلیٰ صفات بڑی حد تک ماند پڑ گئیں اور وُہ اِحساسِ کمتری کا مستقل طور پر شکار ہو گئے، چنانچہ اُنہیں بڑے سے بڑا کارنامہ بھی متاثر نہیں کرتا۔ اُن کے مزاج میں احتجاج کا عنصر غالب ہے اور وُہ ہر چیز میں مین میخ نکالنے کے خوگر ہو چکے ہیں، مگر تمام تر زوال کے بعد اُن کے اندر وُہ عظیم لوگ ہمیشہ موجود رَہے جنہوں نے آزادی کی خاطر لازوال قربانیاں دیں اور پُرامن قانونی جدوجہد کے ذریعے اور قائدِاعظم کی فقید المثال قیادت میں پاکستان حاصل کیا، ہیں۔ پاکستانی قوم کو اَپنے اوپر اعتماد ہونا چاہیے کہ خود اِعتمادی میں ترقی کا راز مضمر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہماری جمہوری نظام میں کامیابی، ناکامیوں سے پاکستان دن رات کرب اور بے چارگی میں گزر رہی ہیں۔ بے بسی اور بے کسی کی ایسی دل ہلادینے والی کہانی جسے سننے اور دیکھنے میں روح کانپ جاتی ہے۔ اس وقت یہ ساری شہ سرخیاں، عدالتی کارروائیاں، رہبروں اور حکمرانوں کے بیانات بے معنی لگتے ہیں۔ دل کی گہرائی سے اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ خبر نہیں ہماری ریاضتیں، عبادتیں، قربانیاں ایثار خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں قبول بھی ہو پارہے ہیں کہ نہیں۔ کروڑوں خاندان کس طرح اپنی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں۔ بازار اور گلیوں سے تو رحمتیں روٹھ گئی ہیں۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں
76سالوں میں ایسا نظام یا سسٹم وضع نہ کر سکا۔ جہاں سارے معاملات از خود حل ہوجاتے۔بر صغیر کے مسلمانوں کی طویل جدو جہد سے حاصل کیا ہوا یہ ملک، بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد اس پر جاگیردار، زمیندار، سردار، سرمایہ دار جو غالب آگئے،اور انہوں نے وہی نظام چلایا جو انگریز امور مملکت چلانے کے لیے سسٹم بنا کر چلےگئے تھے۔ غور کیجئے کہ ایک مستقل اور متفقہ آئین بنانے میں 26 سال لگ گئے۔ دوسری طرف اکثریت آپ سے الگ ہو گئی۔ یہ 26 سال آخر کس کشمکش میں گزر گئے۔باقی51سال میں ہم نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ آئین کو محدود عرصے کیلئے غیر فعال کیوں کر دیا۔ اس جمہور کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے۔ تمہید کا پہلا جملہ یہ ہے اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ملا ہے ۔ وہ ایک مقدس امانت ہے۔‘‘
پاکستان کے 76سال دن رات دیکھ لیں۔ ملک پر جو بھی آفت قدرتی آئی ہے۔ انسانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ جو المیے برپا ہوئے ہیں حکمرانوں کی نا اہلی سے بحران دامن گیر ہوے ہیں جو خلفشار برپا ہوا ہے۔ انتخابی دھاندلیوں سے جو مصائب اور آلام رونما ہوئے ان سب کا سارا ملبہ عام پاکستانی پر ہی کیوں پڑا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نااہل حکمران جو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جھوٹ و فریب کا سہارا لیتے ہیں. سادہ لفظوں میں یہی کہ جھوٹ، فریب سے کام لینا ان کا پیشہ ہوکر رہ گیا ہے. ہٹلر کا مشہور قول ہے . کہ اتنا زیادہ جھوٹ بولو. کہ لوگوں کو سچ کا گمان ہونے لگے. مطلب کے کسی بات کو اس شدت سے دوہرایا جائے. کہ لوگ اس پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرنے پر مجبور ہو جائے. پاکستانی سیاست پروپیگنڈہ کی تعریف پر پورا اترتی ہے. ہمارے ہاں عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے قدم قدم پر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے. اس کو سر سبز باغ دیکھائے جاتے ہیں. مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے. اس صورتحال کو ہم سیاست کا منفی پہلو بھی کہہ سکتے ہیں. کیونکہ زمانہ قدیم ہی سے سیاسی مفکرین کے درمیان سیاست کے منفی اور مثبت پہلو اختلاف رائے سے چلتی آ رہی ہے. مثبت سوچ کے حامل مفکرین کے نزدیک سیاست عوامی خدمت کا نام ہے. جبکہ منفی سوچ رکھنے والے مفکرین سیاست کو اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں. اور یہی طبقہ فکر پروپیگنڈہ کو سیاست کا بہترین ہھتیار تصور کرتے ہیں . کیونکہ اپنے منفی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا عام ہو گیا ہے پاکستانی سیاست میں دونوں سوچ رکھنے والے سیاست دان پائے جاتے ہیں. بدقسمتی سے ملک پاکستان میں مثبت سوچ کی سیاست کو پروان نہیں چڑھنے دیا جاتا ہیں . ہم نے تقریباً سو سال تک انگریز سرکار کی غلامی کی ہے. اس لیے ہماری ذہنیت غلامانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے. ہم سیاست میں جھوٹ، فریب اور مکار لوگوں کی پوجا کرتے ہیں. انہیں اس مقام پر بیٹھا دیتے ہیں. کہ ان کے خلاف ایک لفظ سننا بھی ہم گوارہ نہیں کرتے. سیاست میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں. اس لیے ان کو ان کے کردار کے مطابق عزت دینی چاہیے. عوامی خدمت کی سیاست کا بنیادی مقاصد،پاکستان کی عوام کو ہر وہ سہولت اور آسائش دینا ، جو ان کا بنیادی حق ہیں . مگر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے. کیونکہ عوامی خدمت کی سیاست کو اپنی سیاست کا منشور بنایا. اور پاکستانی عوام کی خدمت ہر بار ان کا جرم قرار پایا. لہذا انہوں نے عوامی خدمت کی بجائے.جھوٹ و فریب کو اپنی سیاست کا موثر ہتھیار بنایا. سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور عوام کو سبز باغ دیکھانے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کیا. بلاشبہ قسمت کی دیوی مہربان ہے. انہوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا. پھر بھی عوام ان کی ہر بات پر اعتبار کرتی ہے. کیونکہ وہ ہٹلر کے قول پر اپنی سیاست کرتے ہیں.ان کی تمام سیاست جھوٹ و فریب پر استوار ہے. جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے. اچھے اور برے انسان کی پرکھ کی تمیز خدمت میں ہی پوشیدہ ہے. اس لیے دن رات عوامی خدمت کو اپنی سیاست کا منشور بنا کر عوام کا سیاسی لیڈر وہی ہوتا ہے. جو انہیں روزگار، اور دیگر آسائشیں زندگی فراہم کرے. محض سبز باغ دیکھانے سے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا.جھوٹ و فریب سیاست کا ایک مہک ہتھیار ضرور ہے. مگر عوامی خدمت سے زیادہ طاقت ور نہیں. جس نے بھی عوامی خدمت کی سیاست کو اپنا لیا. وہی عوام کے دلوں پر راج کرے گا. محض جھوٹ و فریب کی سیاست کرنے والے اب زیادہ دیر اپنی سیاست کو زندہ نہیں رکھ پائے گے. ابھی بھی وقت ہے. سب ہوش کے ناخن لیں . اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی بجائے. عوامی خدمت کی سیاست کو اپنا منشور بنا کر عوام کی خدمت کرے. اسی میں ان کی اپنی اور ملک پاکستان کی سلامتی و بقاءہے.رب العزت ہمارے ملک کی حفاظت فرمائیں ۔۔۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.