مجھے ملا میر ا مندر

0 120

تحریر وطن یار خلجی
بلوچستان کے علاقے ژوب مین 6فروری کی سردترین صبح تھی کہ ژوب کے بابو محلہ میں علاقے کے مشہور و معروف پرائمری سطح کے سکول سپیشل پرائمری سکول ژوب کے صحن مین ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی تھی اس تقریب میں اکثر یت ژوب کے اقلیت برادری کی تھی جسمین ہندو عیسائی اور سکھ موجو د تھے بظاہر تقریب اقلیتوں او رباالخصوص ہندووں کی تھی مگر یہاں پر آج مسلمان بھی بڑی تعداد مین موجو د ہیں اور قابل ذکر مو جو دگی علماءکرام کی بھی ہے یہ پروقار تقر یب ضلعی انتظامیہ ژوب کی مو جو دگی میں ہندو برادری کو یہ 70سال پرانا مندر واپس حوالے کرنے کی ہے مطلب آج مشہور تعیلمی ادارہ جس نے دس سال قبل صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا واپس مندر بننے کو جارہا ہے کیونکہ یہ قیام پاکستان سے قبل ہندووں کا ژوب مین بڑا مندر تھا اور دو سو سال قبل ہندو سیٹھ رام چندنے اسے تعمیر کیاتھا ، گزشتہ تیس سالوں سے اس مندرکو ایک پرائمری سکول میں تبدیل کردیا گیا تھا ، تاہم اب یہ بلوچستان ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کے تحت سکول نہیں رہایہ واپس 70سال بعد پھر سے مندر بن گےا اس پر ہندو برادری کے لوگ بڑے خوش ہےں ان کے ساتھ ساتھ عیسائی اور سکھ بھی بڑے خوش تھے اقلیتی برادری کے اس خوشی میں مسلمان بھی خوش تھے کہ ہندووں کو تاریخی مندر واپس مل رہا ہے سب سے زیادہ خوشی اقلیتی برادری کے چیئر مین سیلم جان کو تھی جس نے بڑے پر مسر ت اندارز میں کہا کہ مجھے آج میر ا مندر ملا ہے وہ مزید کہتے ہیں کہ آج انتہائی خوش ہوں کہ ستر سال بعد ہندوں کو واپس ان کی عبادت گا ہ ملی اور ہم اس میں اپنے مذہبی رسوم ادا کریں گے سلیم جان کہتے ہیںکہ ژوب کے عوام اور باالخصوص علماءکرام کے بھی بے حد مشکور ہے کہ انہوں نے ہمارا ساتھ دےا اور بھرپور تعاون کےا ہم اقلیتی برادری چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کے بھی مشکور ہیں کہ انہوں نے ژوب کے دورے کے مو قع پر اس تاریخی مندر کا دورہ ہماری دعوت پر کیا تھا اور ہم نے اس مو قع پر مندر حوالگی سے متعلق ان سے درخواست بھی کہ کی تھی ۔ سلیم جان نے کہاکہ قیام پاکستان سے قبل ہندوبڑی تعداد میں ژوب میں آباد تھے اور ژوب شہر کے تمام کاروبار ہند و کیا کرتے تھے ،2سو سال قبل ایک ہندو تاجر سیٹھ رام چندنے اس جگہ پر پہاڑی کاٹ کر یہ خوبصورت مندر بنوآیا تھا جسمیں بڑی تعداد مین ہندو آگر اپنے مذہبی رسومات ادا کرتے تھے یہ مندر ہندو کا تاریخی مندر تھا 1947میں قیام پاکستان کے بعد جب ہندووں کی بڑی اکثر یت بھارت چلی گئی تو صر ف چند ہی گھر انے ژوب میں رہ گئی اور تیس سال قبل انتظامیہ نے اس مندر میں ایک پر ائمر ی سکول کی بنیاد رکھی شروع میں اس سکول کا نام بھی مندر میں ایک پرائمری سکول تھا بعد میں اس کا نام تبدیل کرکے اسپیشل سکول ژوب رکھا گیا ۔واضح رہے کہ اس مندر کو حاصل کرنے کےلئے ژوب کی ہندو کمےونٹی نے گزشتہ دس سال سالوں سے جدوجہد کی اور مختلف حکومتوں اور وزراءکو درخواستےں دی تھےں ‘اس دوران انہےں مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا بلکہ انہےں دبا¶ مےں بھی لاےاگےا کہ وہ ان کاوشوں کو چھوڑ دےں ۔تاہم ہندو کمےونٹی نے کوئٹہ مےں اقلےتی تنظےموں کے ساتھ ملکر بلوچستان ہائی کورٹ مےں اےک پٹےشن دائر کےا ۔اور نومبر2019مےں بلوچستان ہائی کورٹ نے قراردےا کہ ژوب کے مندر سمےت اقلےتوں کے تمام عبادت گاہےں انہےں واپس کی جائےں ۔اس طرح ہائی کورٹ کے فےصلے کی روشنی مےں حکومت بلوچستان اور محکمہ تعلےم نے اس عمارت کو واپس ہندووں کو حوالے کےا تاکہ وہ دوبارہ اسے مندر کے طور پر استعمال کرسکےں۔ سلیم جان نے ایک اور اہم بات یہ بتائی کہ 1928کے سرکاری نقشوں میں ژوب میں اس وقت چھ سے زائد مندر فعال تھے جن میں سے بشہتر پر قیام پاکستان کے بعد قبضے ہوگئے ۔ژوب کے قندہاری بازار کے قریب ایک مندرمیں مدرسہ بن گیا پولیس لائن میں واقع مندر میں پولیس کا دفتر قائم ہے تھانہ روڈ پر واقع مندرمیں سرکاری بنک بن گیا ، آریا سماج والے دفتر پر بھی کسی نے قبضہ کیا ، یہ زمینیں قیا م پاکستان کے بعد محکمہ اوقات کی تحویل میں ہونی چاہئے تھی مگر لوگوں نے اس پر قبضے کرلئے ، سلیم جان نے بتایا ہندوں کے پاس شمشان گھاٹ کے لئے بھی جگہ نہیں ہے شمشان گھاٹ پر ہائی سکول بناہوا ہے اس تاریخی مندر کے قریب ہی سکھ برادری کے گورد وارے پر بھی قبضہ ہے اور اس میں بھی سکول قائم ہے ژوب میں چند سکھ گھر انے رہتے ہیں مگر ان کی کوئی عبادت گاہ نہیں ہمیں انتظامیہ نے گوردوارے کی عمارت کو خالی کرانے اور سکول کو کہیں اور منتقل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے سلیم جان نے یہ بھی بتایا کہ ژوب میں اس وقت چالیس سے پچاس ہندو گھرانے آباد ہیں ان کے پاس غریب آباد میں صرف ایک سوسال پہلے کا کچا مندر ہے جس کی چھت کسی بھی وقت گرسکتی ہے اور ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہوئی ہےکہ بابو محلہ کے تاریخی مندر میں جو پہلے اسکول قائم تھا اس میں 600بچے تعلیم حاصل کررہے تھے اب ان کو اس سے بھی بہتر متبادل جگہ مل گیا ہے ہمیں جو تاریخی مندر حوالے کیا گیا ہے یہ بھی انتہائی خستہ حال حالت میں میں ہے اس کی مو ر تیاں بھی تو ڑ دی گئی ہیں یا پھر غائب کر دی گئیں ، شہر کے سیوریج کا گندہ پانی بھی مندر کے صحن میں آتا ہے حکومت سے استدعا ہے کہ اس تاریخی مندر کی عمارت بحال کرنے کیلئے فنڈ ز فراہم کر یں ، بلوچستان کے ممتاز عالم دین اور خطیب جامع مسجد ژوب شیخ الحد یث مولانا اللہ داد کاکڑنے مندر کی حوالگی کے حوالے سے بتایا کہ اسلام میں اقلیتوں کے بڑے حقوق ہیں ان کی جان ومال کی حفاظت اور مذہبی آزادی کے احترام بڑے حقوق ہیں ان کی جان ومال کی حفاظت اور مذہبی آزادی کے احترام کا ہمیں درس دیا گیا ہے ہم مندر حوالگی کے فیصلے کو سراہتے ہیں ژوب میں ہندو سکھ اور عیسائی صریوں سے آباد ہیں اور یہاں کے تمام قبائلی کے ساتھ ان کے اچھے مر اسم ہیں ، اقلیتی برادری کو ان کے عقائد کے مطابق ان کے عبادت گاہوں میں مذہبی رسوم کی ادائیگی کا حق حاصل ہے اور اسلام میں اس بات کے واضح احکامات ہیں ، لہٰذا ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے مذہبی آزادی کا احترام کرنا ہوگا ، ڈپٹی کمشنر ژوب طلحہ سیلم نے ہندو مندر حوالگی سے متعلق بتاےا کہ بلوچستان اور پھر ژوب کے لئے یہ اقدام بڑی اہمےت کے حامل ہے سب نے دےکھا کہ مندر حوالگی کے موقع پر جید علماءکرام بھی شرےک ہوئے جو خوش آئند ہے اور بالخصوص شےخ الحدےث مولانا اللہ داد کا کڑ نے نہ صرف مندر کو ہندووں کے حوالے کرنے کے حکومتی فےصلے کی حمایت کی بلکہ خود بھی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے تھے جو مذہبی ہم آہنگی کیلئے ایک بہتر ین مثال ہے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ یہ ایک زبردست فیصلہ ہے کہ شتر سال بعد ہندو برادری کو ان کا مندر ملا ہے ہم اس مندر کی تزہین وآرائیش کا کام بھی جلد مکمل کریں گے تاکہ ہندو برادری جلد اسمیں اپنے رسومات شروع کرسکیں اور ہم اس مندر کو اس قابل بنا ئیں گے کہ دور داراز سے زائرین بھی آسکیں گے اس بات کو پوری دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ ہمارے علماءکرام نے کتنی فراخ دلی سے اقلیتی برادری کو گلے سے لگا یا ہے دریں اثنا ءفےصلے سے ہندو برادری بڑی خو ش ہے کہ انہیں ان کا مندر واپس ملا ہے تاہم دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ژوب سمیت بلوچستان میں کافی مندر اور گوردوارے ہیں جو کہ قبضہ شدہ ہیں ان میں سے اکثر میں سرکاری عمارتیں اور تعلیمی ادارے قائم کہیں کچھ عام با اثر شخصیات نے قبضہ کئے ہیں اقلیتی برادری کے عبادت گا ہوں میں ایک بڑی تعداد صوبائی دارالحکومت کو ئٹہ میں بھی ہے جو کہ بر سوں سے قبضہ شدہ ہیں قیام پاکستان سے قبل صرف کوئٹہ میں 49کے قریب مذہبی عبادت گا ہیں تھیں جہاں پر ہندو سکھ عیسائی و غیر ہ اپنے مذہبی رسومات اداکیا کرتے تھے لیکن اب 5گوردوارے اور 4مندر رہ گئے ہیں اس وقت جو مندر گوردوارے اور چر چ موجو د ہیں ان کی بھی حالت اس طر ح ہے کہ حکومتی تواجہ انہیں چایئے سب سے ام چیز اقلیتی مذہبی عبادت گا ہوں کو سیکورٹی کی بھی ضرورت ہے بلوچستان ہائی کورٹ نے گزشتہ سال ایک اہم فیصلہ دیا تھا کہ اقلیتوں کے مذہبی عبادت گاہیں جو کہ اس وقت قبصہ ہیں یا ان میں سرکاری دفاتر یا پھر سکولز کھولے گئے ہیں یہ عبادت گاہیں متعلقہ اقلیتی کمیونٹی کو واپس کئے جائیں تاکہ ان میں ان دوبارہ اپنے عقائد کے مطابق مذہبی رسوم ادا کر سکیں ، بلوچستان ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد حکومت بلوچستان نے دو اہم اقدامات اس سلسلے میں اٹھا ئے ہیں جن کے مطابق ژوب میں مندرکو ہندوں کے حوالے کیا گیا ہے جبکہ کوئٹة میں ایک تاریخی گوردوارہ سکھ برادری کے حوالے ہوا ہے تاہم اقلیتوں کا کہنا ہے کہ ہماری دیگر قبضہ شدہ عبادت گا ہیں بھی خالی کرکے ان کے حوالے کئے جائیں کیونکہ اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے لئے عبادت گاہیں کم پڑگئی ہے آخر وہ کہاں جاکر مذہبی رسومات ادا کریں اس سلسلے میں بلوچستان کے اقلیتی رہنماءسردار جسبیر سنگھ نے بتا یا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے مذہبی عبادت گا ہوں پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اور مسائل ہمارے لئے بڑھ گئے ، عدلیہ نے جو ایکشن لیا اس کو ہم سر ا ہتے ہیں اس کی پا سداری میں مو جو دہ حکومت نے ژوب اور کوئٹہ میں دو اہم قبضہ شدہ عبادت گاہیں ہمیں واپس دلائے ہیں آج بھی سکھ کمیونٹی جو کہ کوئٹہ ڈھائی ہزار گھرانے ہیں کو ئی گوردوارہ ایسا نہیں ہے کہ ہم اسے عبادت کیلئے استعمال کرسکیں ، حال ہی میں اپوا ءگرلز ہائی سکول کو ہماری تحویل میں دیا گیا ہے جس کو واپس سکھ کمیونٹی گوردوارے کی صورت میں بحال کرے گی ہم عدلیہ کے مشکور ہیں کہ ان کے فیصلے کی روشنی میں سکھ کمیونٹی کو اپنا وردوارہ مل گیا ۔ جسبیر سنگھ نے کہا کہ بلوچستان میں اب بھی 22اقلیتی مذاہب کی عبادت گا ہیں موجو دہیں جو کہ قبضہ شدہ ہیں اہم بات یہ ہے کہ ہماری یہ عبادت گاہیں خستہ حال ہیں ان کی اصل حالت کو خراب کرنے کی کو شش کی گئی ہے سبی اور زیارت میں بھی دو اہم گوردوارے ہیں جس کو ہمارے حوالے کرنے کی ضرورت ہے کوئٹة میں اس وقت 11مندر ہندو کمیونٹی کے پاس ہیں جبکہ کہ سچن کمیونٹی کے پاس 280چر چ ہیںجسمیں چھوٹے بڑے چر چ شامل ہیں دیگر اقلیتی کمیونیٹیزبھی کوئٹہ میں آبادہیں جن کے اپنے اپنے عبادت گا ہیں ہیں ، جسبیر سنگھ نے کہا کہ اقلیتوں کے عبادت گاہوں کے مسائل بھی ہیں اول مسلہ سیکورٹی کا ہے تاکہ ہماری عبادت گا ہیں محفوظ ہوں اور ہم آزادانہ طور پر اپنے عبادت گا ہوں میں اپنے رسومات ادا کرسکیں ہمیں جو تاریخی گوردوارہ کوئٹہ میں ملا ہے جس کو ہم نے ابھی فعال کرنا ہے اس میں محکمہ اوقاف والوں نے ایک مکان مسلم بھائی کو کرایہ پر دیا ہے ہم نے جب اس کی نشاندہی کی تو اوقاف والے کہتے ہیں کہ اس مکان میں یہ مسلم کافی عر صہ سے آباد ہے ہم نے کہا کہ اس بھائی کو کہیں مکان دلوادیں کیونکہ یہ تو ابھی ہمارا گوردوارہ بن چکا ہے اور ہم یہاں پر اپنی عبادت کریں گے اور یہ واحد گوردوارہ ہے جو کہ ایک نشانی ہے ہم سے یہ ناانصافی نہ کی جائے اور ظلم تو یہ ہے کہ اس گوردوارے میں قائم اس مکان میں باقاعدہ کولڈ ڈرنک کی ایک کمپنی قائم کی گئی ہے اور ہم نے حکومت کے نوٹس مین بھی یہ مسلہ لایا ہے مجھے اس مسلے کو ہائی لائٹ کرنے پر دھمکیاں بھی مل چکی ہیں مگر یہ بات انتہائی نا منا سب ہے کہ سکھوں کے گوردوارے میں مسلم بھائی کو جو مکان کرایے پر ملا ہے اس میں کاروبار ہو رہا ہو ہم آزادانہ عبادت کس طرح سے کریں گے ہماری مائیں بہنیں بھی یہاں عبادت کے لئے آئیں گی کیا ان کیلئے یہ صورتحال مشکل نہیں ہوگا لہٰذا حکومت بلوچستان اس کا نو ٹس لیں اور ہماری عبادت گا ہیں محفوظ بنوائی جائیں بلوچستان میں اقلیتی برادری کے عبادت گاہوں پر حکومت بلوچستان کے اقلیتی امور کے مشیر اور رکن بلوچستان اسمبلی دنیش کمار سے پو چھا گیا کہ حکومت وقت کیا کر رہی ہے تو دنیش کمار نے بتا یا کہ مو جو دہ صوبائی حکومت و ز یر اعلیٰ میر جام کمال خان کی سربراہی میں یہ وژن رکھتی ہے کہ بلوچستان میں اقلیتوں کے تمام عبادت گاہوں کو فعال بنا یا جائے اور ان کے مسائل حل ہوں ہم نے سیکورٹی کے معاملات پر بھی خصوصی تو جہ دی ہے اور دیکھیںیہ کریڈٹ بھی حکومت بلوچستان اور خود وزیر اعلیٰ بلوچستان میر جام کمال کی ذاتی دلچسپی کو جاتا ہے کہ گزشتہ چند مہنیوں میں ہم دو تاریخی مذہبی مقامات ژوب میں ہندو کمیونٹی کو مندر اور کوئٹہ میں سکھ برادری کا گوردوارہ واپس انہیں دلوایا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی کوشش ہے کہ باقی جو مندر گوردوارے اور چر چ قبضہ ہوچکے ہیں انہیں بھی واپس لیکر اقلیتی کمیونٹی کے حوالے کریں گے کیونکہ معزز بلوچستان ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ بھی یہی ہے کہ جو بھی اقلیتی عبادت گا ہیں قیام پاکستان کے بعد قبضہ ہوچکی ہیں اس قبضے کو ختم کیا جائے ہم اقلیتی برادری بلوچستان ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے شکر گزار ہیں حکومت نے قبضے ختم کرانے اور عبادت گا ہیں پرانی حےثیت میںبحال کرانے کیلئے تاریخی قدم اٹھا یا ہو ا ہے ہم دیگر مسائل پر بھی توجہ دے رہے ہےں حکومت ان مندروں اور گوردواروں کی تزئےن وآرائش اور بحالی پر کام کررہی ہے اس مقصد کیلئے فنڈ ز بھی فراہم کریں گے ، اقلیتی عبادت گا ہوں میں اب تمام کمیونٹیزکو تمام تر سہولتےں اور سیکورٹی ملے گی ، دنیش کمار نے کہا کہ کرونا وائر س کا مسئلہ ختم ہوتے ہی ہم واپس فعال انداز میںاقلیتی عبادت گاہوں کی حالت زار پر توجہ دےنگے ‘واضح رہے کہ بلوچستان مےں اقلےتی برادری کی مذہبی عبادت گاہوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور خاص کر اب بھی 22ایسے پرانے عبادت گا ہیں موجو دہیں جو کہ قبضہ شدہ ہیں بلوچستان ہائی کورٹ کے نو مبر 2019کے تاریخی فیصلے کی روشنی میں ان عبادت گا ہوں کو آزاد کر اکر واپس اقلیتی برادری کے حوالے کئے جائیں کیونکہ اقلیتوں کے پاس عبادت کیلئے عبادت گا ہیں انتہائی کم پڑگئی ہیں ‘ اگر دےکھا جائے تو اسلام اور ملکی آئےن دونوں مےں اقلےتوں کے حقوق اور ان کے عبادت گاہوں کا تحفظ موجود ہےں ‘آئےن پاکستان تمام غےر مسلم شہرےوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے اقلےتوں کے ساتھ برابری کا سلوک ملکی دستور اور آئےن پاکستان کے آرٹےکل 20کا اہم جز ہے۔ ےہ آرٹےکل اقلےتوں کو ہر طرح سے مذہبی ثقافتی اور معاشرتی آزادی اوران کے عبادت گاہوں کے تحفظ و مسائل کے حل کا حق دےتا ہے قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی مےں اپنے تارےخی خطاب مےں اقلےتوں کے حوالے سے تارےخی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ آزاد ہےں اپنے مندروں مےں جانے کےلئے اور رےاست پاکستان مےں اپنے کسی بھی عبادت گاہ مےں جانے کےلئے اجازت ہے آپ کا تعلق کسی بھی مذہب زات نسل سے ہو رےاست کا اس سے کوئی لےنا دےنا نہےں ہے۔ سردست حکومت بلوچستان نے جس مندر اور گوردوارہ کو ہندو اور سکھ کمےونٹی کے حوالے کےا ہے اس کےلئے فنڈز بھی درکار ہےں تاکہ انہےں واپس اصل حالت مےں لاےا جائے اور جو22عبادت گاہےں اب بھی قبضہ ہےں ، لہٰذا حکومت بلوچستان کی اولین تر جیح ان عبادت گا ہوں کی واپسی ہونی چاہئے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.