دنیا کی ہر پیاری ماں کے نام

0 45

روبینہ ملک

انسان کی پیدائش کا شرف رب العالمین نے روئے زمین پر اشرف المخلوقات میں عورت کو بخشا۔اس فیصلے کی بخشش جنت ماں کے قدموں تلے ہے یہ انعام ماں بننے کے مراحل اور پرورش میں اذیتوں‘ مشکلوں اور اپنی آرام کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں کہ ماں اہل زمین کے لئے رب کریم کا تحفہ ہے ۔اہل مغرب کی طرف سے ہر سال ایک مخصوص دن ماں کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ حالانکہ اسلام نے ماں جیسے انمول ہیرے کو چوبیس گھنٹے میں کسی بھی لمحہ ماں کی کوتاہی کو ناپسندیدہ اور خدمت حسن و پیار کی افضلیت قرار دیا ہے۔ ماں کا شیریں لفظ اپنی تدوین و تجسیم کے دامن میں اقوام عالم کے پیکران معانی و تفاھیم سمیٹے ہوئے ہے یہ احساسات‘ درد مندی‘ یا خلوص اور پیار و محبت کا گرانقدر نسخہ کیمیا ہے۔ ماں کی ممتا جہاں میں احساسات کا لطیف ترین جذبہ ہے۔ ماں کسی بھی رنگ و نسل سے ہو اس کی چھاﺅں اولاد کے لئے گھنا سایہ دار سرمایہ ہے۔ ماں محبت کرنے والی‘ ایثار کرنے والی اور نڈر ‘ نہ خفا ہونے والی ہے ماں اس کائنات کے سب سے مخلص ترین اچھے سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی اعلیٰ و ارفع ترین تخلیق میں جو خوبصورتی ماں و باپ کے روپ میں دی ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے بالخصوص ماں جیسی ہستی کا رشتہ کوئی بھی مدمقابل نہیں ہو سکتا۔گو اس دن کو عالمی طور پر منایا جاتا ہے بلکہ اس کو منانا احساسات کے کٹہرے میں لایا جائے تو آج کی اشتہار بازی کی صنعت نے احساسات ‘ جذبات‘ انمول محبتوں اور احسانات کی ان زنجیروں کو بے مول کرڈالا ہے۔یہ تو ہمہ وقت متوجہ کے طلب گار ہیں۔خدارا ان کو مال تجارت نہ بنایا جائے۔ اس مذمت کی جانی چاہیے آج جنس ارزاں کی طرح ماں کی محبت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ آپ کا اپنی ماں کے حوالے سے کیا احساس ہے۔اس یوم پر آپ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ کیا ماں کا لمس آپ کو لحد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔ آپ بوڑھے ہو کر بھی ماں کی یاد کے احساس میں اپنے اندر ایک چھوٹے بچے کے روپ کا احساس کرتے ہو۔ ماں کی محبت جذبے اور ممتا کا احساس کو الفاظ کا رنگ نہیں دیا جا سکتا بلکہ ایک یہ لمس ہے یہ مغرب کی دین ہے مشرق کی نہیںماں کے رشتے کی اہمیت ماں کی گود انسانیت کی سب سے پہلا مکتب ہے۔ یہ تہذیب و شائستگی کا گہوارہ اور کائنات کا سب سے پرخلوص رشتہ ہے۔یہ ایسا شجر سایہ دار ہے جس کی گھنی چھاﺅں کبھی کم نہیں ہوتی ماں خاندانی نظام کی اساس اور اسلام تہذیب کا بنیاد نشان ہے۔ یہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اور معاشرتی قدروں کی امین اور پرخلوص سچے جذبے کی آئینہ دار ہے۔ ماں اگر جانور ہے تو وہ بھی ممتاز کے جذبے اور خلوص و وفا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خفا ہو کر بھی فکر مند رہنا یہ ماﺅں کی ادائیں ہوتی ہیں۔ ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر نور آنکھوں میں ٹھنڈک الفاظ میں محبت آغوت میں دنیا بھر کا سکون ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہے۔ ماں کی ایک عادت تو رب سے ملتی جلتی ہے کہ دونوں ہی معاف کر دیتے ہیں۔
ماں قدرت کا ایسا شاہکار ہے جس کا وعدہ ایسا کہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ احساس ایسا کہ کبھی کم نہیں ہوتا۔ خواب ایسا جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ سایا رہتا ہے اور محبت کا کیا جواب جو کبھی بھی کم نہیں ہوتی بلکہ ہمہ وقت بڑھتی رہتی ہے۔
حضرت شیخ سعدی ؒ نے کہا ہے محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے شاعر مشرق اور مفکر اسلام علامہ اقبال نے کہا سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جا سکتا ہے۔
دین اسلام میں ماں کی نافرمانی کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ ماں وہ ہستی ہے جس نے انسان کو پالا پوسا۔ان کی پرورش میں اپنی ہر راحت کو قربان کیا اپنا آرام اور اپنی ہر خواہش کو ترک کیا۔ ماں کا مقام ہر پل ہر گھڑی ہر دن اور ہر رات خدمت‘ راحت و سکون لازم و ملزوم ہے چہ جائیکہ ہم ایک دن کی اہمیت کو اجاگر سمجھیں ماں کا حوصلہ جانچنا ہو تو سرحد پہ تعینات ان فوجی جوانوں کو سلام ہمہ وقت وطن کی سرزمین پر قربان ہونے کو تیار ہیں۔شہدا کی ماﺅں کو عقیدت بھرا سلام جو آہوں سسکیوں اور آنسوﺅں کے بغیر ان کو اللہ تعالیٰ کے سپرد بہادری کے ساتھ جرات مندی سے کرتی ہیں ۔ عصر حاضر ملکی معاملات میں دہشت گردی ‘ انڈیا پاکستان کے جنگی حالات اور دیگر مسائل پر نظر دوڑائیں تو مغرب ماحول کی دلدادہ ماﺅں سے نہایت مودبانہ ادبی گزارش ہے کہ بچوں کی تربیت اسلام سے رغبت اور وطن عزیز سے والہانہ عشق کی ترغیب پر زور دیں۔ آنے والا وقت ان نونہالوں نے ہی سنبھالنا ہے ہم لوگ اپنے دور کی ماﺅں اور ان ماﺅں کے وقت کو یاد کریں تو آج کا ماحول بہت بدل چکا ہے ماں کی گود ہی نسل نو کے لئے مشعل راہ ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں گھر میں والدین اور درس گاہوں میں استاد کی تلقین کی شدید ضرور ضرورت اور احتیاج محسوس ہوتی ہے خدارا اس قوم کی متاع عزیز کا ضیاع نہ کریں اسلام نے عورت کو گھر میں بڑا باعزت مقام دیا ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔اسلام نے فرزندوں کو ماں کی خدمت کی وہ ترغیب دی ہے کہ ایک مسلمان کی نیکو کاری اور پرہیز گاری داغدار ہو جاتی ہے اگر وہ ماں کی خدمت سے گریز کرتا ہے آج کے نام نہاد ترقی یافتہ اور مادہ پرستی کے دور میں انسان بہت سی ایسی اخلاقی اور سماجی قدروں سے دور ہوتا جا رہا ہے جو ہمیشہ سے شرف انسانیت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم گوناگوں پریشانیوں ‘ الجھنوں اور مصائب میں گھر کر رہ گئے ہیں۔ بنیادی طور پر ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں ایک ایسا نسخہ کیمیا موجود ہے جو ہماری ان جملہ پریشانیوں اور مصائب کا بہترین انداز میں مداوا کر سکتا ہے یہ ہمارا ایمان ہے اسلام کی اس تعلیم کا یہ نتیجہ ہے۔ مسلمان ماﺅں کی بہادر بیٹیوں نے ہر میدان بڑے بڑے معرکے سرانجام دیے۔
چنانچہ اسلام کے عہد زریں میں ہماری تاریخ بہادر مدبر اور اہل علم و فضل بہادر ماﺅں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ مسلمان عورتیں مردوں کے دوش بدوش جنگوں میں حصہ لیتیں اور فوجوں کی رہنمائی کرتیں آج مجھے جس موضوع پر لب کشائی کرنے کا موقع ملا ہے وہ کہنے کو تو ایک لفظ ہے لیکن زبان پر آتے ہی نگاہیں ادب سے جھک جاتی ہیں دل و دماغ عقیدت و احترام سے معطر ہو جائے ہیں میری مراد لفظ ماں سے ہے۔ سب سے شیریں پیار ماں کا ہے ماں کے بغیر گھر قبرستان کی مانند ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.