بلوچستان میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کا بحران ہے، فضل یعقوب بلوچ

0 124

خضدار(مجیب زیب)بلوچستان میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کا بحران ہے وہی ان مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود چند گنے چنے لوگ تعلیم حاصل کرلیں تو انہیں روزگار کےلیے در در کی ٹھوکریں کھانے پڑتے ہیں. پریس کانفرنس سے خطاب کرتے فضل یعقوب بلوچ کا کہنا تھا کہ رواں سال فروری کے مہینہ میں حکومت بلوچستان کی جانب سے محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی گریڈ 9تا15 کے برسوں سے خالی آسامیوں کو پر کرنے کا اعلان کیا گیا اور اسکی ریکروٹمنٹ ٹیسٹ کی ذمہ داری سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی کو دی گئی جن پر اپلائی کرنے کی آخری تاریخ 17 مارچ تھی . مذکورہ لگ بھگ 8551 پوسٹس کی مشتہر ہونے سے بلوچستان کے ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، صرف اس لیے نہیں کہ انہیں روزگار ملے گا بلکہ انہیں پیغمبرانہ شعبے میں جاکر اپنے قوم کی خدمت کرنے کا موقع ملنے والا تھا. کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایجوکیشن دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کی ماں ہے. باقی تمام شعبہ جات کی ورک فورس بھی ایسے ادارے یعنی محکمہ ایجوکیشن کی کوکھ سے جنم لیتی ہے لہذا یہ ادارہ جتنا منظم اور قابل لوگوں کی ہاتھ میں ہوگا اتنا ہی باقی اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی . کیونکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی راز ان کی تعلیمی اداروں کی بہتری ہے تو وہی ترقی پزیر ممالک کی وجہ پسماندگی بھی انکی تعلیمی اداروں کی ابتری ہے. مذکورہ مشتہر آسامیوں پر نوجوانوں نے گرمجوشی سے

 

اپلائی کیے، دل لگا کر تیاری کیے، ایس بی کے نے اس کی ٹیسٹ لیے اور نوجوانوں نے انتہائی مشکل ترین ٹیسٹ پاس بھی کر لیے مگر شومئی قسمت کہیے یا تعلیمی نظام میں رکاوٹ عناصر کہ سازش کہ ایک خود ساختہ فیسبکی صحافی بایزید خروٹی کے زریعے ان پوسٹس کو کینسل کرنے کے لیے عدالت عالیہ کوئٹہ میں جون کے مہینے میں ایک آئینی پٹیشن حکومت بلوچستان اور وائس چانسلر ایس بی کے کی مدعیت میں دائر کرکے مطالبہ کیا گیا کہ یہ مشتہر پوسٹس غیر قانونی ہیں لہذا انہیں منسوخ کرکے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے زریعے اعلان کیے جائیں. عدالت عالیہ نے اسکی نوٹس لیکر حکم نامہ جاری کرکے سیکریٹری ایجوکیشن اور ایس بی کے وی سی کو عدالت میں طلب کیاہے مگر وہ مسلسل تین مرتبہ ہائی کورٹ میں پیش ہونے سے کتراتے ہیں جو انکی کردار پر کئی سوالات کھڑے کرتے ہیں . اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں پہلا اگر یہ آسامیاں منسوخ کیے

 

جاتے ہیں تو جتنا امیدواروں کو اس ٹیسٹ کی وجہ سے معاشی اور ذہنی کوفت سے گزارا گیا اس کی ازالہ کیسے کرینگے کیونکہ ایک طرف بھاری بھرکم فیس امیدواروں سے وصول کیا گیا دوسری طرف انہیں ایک قلیل مدت کےلیے انتہائی طویل سلیبس دیا گیا کہ جس کی تیاری میں امیدواران نے دن رات ایک کرکے محنت کیے جس سے نہ صرف انکی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہوا بلکہ انکی اپنی کیریئر بھی بری طرح سے متاثر ہوا. کئی امیدواروں نے تو نجی اکیڈمیز میں

 

داخلہ لیکر ٹیسٹ کی تیاری کےلیے الگ پیسے خرچ کیے ان سب کے باوجود گورنمنٹ نے جو ٹیسٹ منعقد کروائے جو ایک مہینے سے زائد مدت تک بلوچستان کے مختلف ضلعوں میں جاری رہے . جہاں مختلف آفیشلز اور اسٹاف کے ٹی اے/ ڈی اے کی مد میں لاکھوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے گئے جو بلاواسطہ عوام کے ہی ٹیکس سے جمع شدہ رقم تھی ان سب کی ازالہ حکومت بلوچستان اس معاشی بحران میں کیسے کرے گی. ان تمام ذہنی و جسمانی کوفت اور اخراجات کی ازالہ اگر گورنمنٹ کرے تو آسامیاں کینسل کرکے کمیشن کو دینے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سوال یہ جنم لیتا ہے کیا بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے پاس اتنی اسٹاف کیپسٹی ہے کہ 8551 پوسٹس

 

پر کم بیش دو لاکھ امیدواران کی ٹیسٹ منعقد کرسکے؟ کیا وہ ہر ضلع میں جاکر ٹیسٹ منعقد کرسکے گی یا تمام امیدواروں کو کوئٹہ بلا کر ٹیسٹ لینے کی قوت رکھتی ہے؟ دوسری بات یہ کہ عدالت میں تین پیشی ہونے کے باوجود گورمنٹ آف بلوچستان کی اٹارنی جنرل، سیکریٹری ایجوکیشن اور وائس چانسلر ایس بی کے عدالت سے کس لیے مفرور ہیں اور درمیان میں انکی غیر زمہ داری کی سبب رزلٹ پر اسٹے آرڈر دیکر انکی سزا امیدواران کو کیوں دے رہے ہیں ؟ مزید اس کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اسٹے میں جتنا کردار بایزید خروٹی کا ہے تو اتنا ہی گورمنٹ آف بلوچستان اور ایس بی کے کا بھی ہے. لہذا اس پریس کانفرنس کی توسط سے ہم حکومت بلوچستان اور ایس بی کے کو گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ 10 اگست کو ہائی کورٹ میں ہونے والے اس کیس کی سماعت میں عدالت عالیہ کے روبرو پیش ہوکر اپنے اوپر مدعا علیہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی صفائی بمع ثبوت پیش کریں اور ہم عدالت عالیہ سے بھی پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اسٹے آرڈر ختم کرکے میریٹ کی یقین دہانی کا حکم صادر کرے۔ ہم اس پلیٹ فارم کے زریعے حکومت بلوچستان، سیکریٹری ایجوکیشن اور ایس بی کے یونیورسٹی کو تنبیہ کرتے ہیں کہ اگر آنے والے سماعت میں ہائی کورٹ میں پیش نہ ہوئے اور خدانخواستہ فیصلہ ہمارے خلاف آگیا تو ہم اپنے مرکزی کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق اپنے تمام آئینی جمہوری حقوق استعمال کرکے پورے بلوچستان میں شدید احتجاج اور ہڑتال کا طویل سلسلہ شروع کرینگے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.