امریکا نے پاکستان کو جدید میزائل پروگرام میں شامل کرلیا
امریکا نے پاکستان کو جدید میزائل پروگرام میں شامل کرلیا
امریکا نے پاکستان کو اپنے جدید ترین میزائل پروگرام میں شامل کرلیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو فضاء سے فضاء میں مار کرنے والے جدید اے آئی ایم-120سی8/ڈی3 میزائل فراہم کیے جائیں گے۔ امریکی محکمہ برائے جنگ (سابقہ محکمہ دفاع) نے 6 اکتوبر کو خاموشی سے پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جو امریکی کمپنی ریتھیون (Raytheon) سے یہ جدید میزائل حاصل کر رہے ہیں۔
یہ فیصلہ 41.68 ملین ڈالر کے ایک اضافی معاہدے کے تحت کیا گیا ہے، جو پہلے سے موجود 2.51 ارب ڈالر کے عالمی دفاعی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس منصوبے میں امریکا کے اتحادی اور غیر اتحادی ممالک جیسے جاپان، جرمنی، برطانیہ، اسرائیل، ترکیہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر اور اب پاکستان شامل ہیں۔
اگرچہ اس بات کی تفصیلات تاحال واضح نہیں کہ پاکستان کو کتنے میزائل فراہم کیے جائیں گے، تاہم ماہرین کے مطابق یہ اقدام پاکستان کے ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے عمل کی طرف ایک اہم اشارہ ہے۔
اب تک پاکستانی دفتر خارجہ، پاک فضائیہ یا آئی ایس پی آر کی جانب سے اس بارے میں کوئی باضابطہ تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔
یہ وہی ایف-16 طیارے ہیں جو پاکستان نے 2006 میں پیس ڈرائیو پروگرام کے تحت حاصل کیے تھے، جن کے ساتھ 500 اے آئی ایم-120سی5 میزائل بھی دیے گئے تھے۔ نیا اے آئی ایم-120سی8 میزائل، امریکی فضائیہ کے سب سے جدید ماڈل اے آئی ایم-120ڈی کا برآمدی ورژن ہے، جس کی جانچ 2023 میں مکمل کی گئی تھی۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ابتدائی معاہدہ ممکنہ طور پر انتظامی اور تربیتی مراحل سے متعلق ہے، مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ جدید دفاعی ٹیکنالوجی کے تبادلے پر دوبارہ آمادہ ہے۔
ذرائع کے مطابق جولائی 2025 میں پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کے واشنگٹن دورے کے دوران امریکی حکام سے ہونے والی ملاقات میں اسی پیش رفت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
امریکی محکمہ جنگ کے مطابق، یہ منظوری دراصل 41.6 ارب ڈالر کے عالمی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت 30 سے زائد اتحادی ممالک کو جدید میزائل فراہم کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کا مقصد نیٹو اور انڈو پیسیفک ممالک سمیت اتحادی ریاستوں کے فضائی دفاعی نظام کو ہم آہنگ کرنا ہے۔
یہ پروگرام 2030 تک مکمل کیا جائے گا، اور اس عرصے کے دوران میزائلوں کی پیداوار اور ترسیل کا سلسلہ جاری رہے گا۔ امریکی حکام کے مطابق، یہ منصوبہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی کشیدگیوں، خصوصاً روس، چین اور مشرقی یورپ کی صورتحال کے تناظر میں شروع کیا گیا ہے تاکہ امریکا اور اس کے اتحادی اپنی تکنیکی برتری برقرار رکھ سکیں۔