سیاسی کارکن کی تربیت
جمعیت علماءاسلام کے زیراہتمام آج بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ورکرز تربیتی کنونشن کاانعقاد کیا جارہاہے جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہے کہ ورکرز یا کارکن ہر جماعت کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے انکی بہتر تربیت حسن اخلاق اور مدلل طرز گفتگو اس جماعت کے عظیم فکر اور نظریہ کی عکاس ہوتی ہیں جس جماعت کے کارکنوں کو اعلیٰ تربیت حسن اخلاق اور کردار کے اسلحہ سے لیس کیاجائیں وہی جماعت اور اسکے کارکن یقیناً انمول ہوتے ہیں جمعیت علماءاسلام کا اس سلسلے میں پہل امید کی ایک کرن ہے دیگر جماعتیں بھی اگر حالات کی نزاکت کااحساس کرتے ہوئے کارکنوں کی تربیت پر توجہ دیں تو یہ ایک بہترین سیاسی فضاء کے قیام کیلئے نیک شگون ہوگی ملک کے سیاسی جماعتوں میں جہاں ایک طرف روز بروز نوجوان نسل نہ صرف سیاسی فکری نظریاتی اور اخلاقی زوال پذیری کا شکار ہوتے جارہے ہیں وہاں دوسری جانب دلیل کی بجائے تذلیل شائستگی کی بجائے گالم گلوچ شرافت اور احترام کے بجائے بدتہذیبی اور بدکلامی جیسے عوامل وباء کی شکل اختیار کرکے پھیل رہی ہیں ان حالات میں اپنے کارکنوں کی بہتر تربیت ہر جماعت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں میں تربیت یافتہ نظریاتی کارکن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں بلاشبہ ایک تربیت یافتہ باکردار نظریاتی کارکن کی اصول پرستی سنجیدگی بہترین اخلاق اختلاف میں مہذب لہجہ گفتگو میں شائستگی اور نرمی ان کے بہتر نظریاتی فکر اور تربیت کی عکاس ہوتی ہے بدقسمتی سے ملک کے اکثر سیاسی جماعتوں کے کارکن عرصہ دراز سے تربیتی فقدان کا شکار ہے بلکہ بعض جماعتیں تو لیڈر سے لے کر ورکر تک تربیت سے محروم ہے مخالف جماعت پر مثبت اور تعمیری تنقید کی بجائیں لعن طعن گالم گلوچ اور بہتان بازی و دیگر منفی سرگرمیوں کا سہارا لیکر تنقید کرنااور سیاسی روایات و معاشرتی اقدار کے منافی اعمال ان جماعتوں کے کارکنان کا نشان امتیاز بن چکا ہے یہی نہیں بلکہ ان عناصر کی جانب سے اندرون اور بیرون ملک قومی قیادت کی پگڑیاں اچھالنا ان پر نعرے بازی کرنا غلیظ اور غیر مہذب الفاظ کااستعمال کرنا جیسے عوامل ملک کے پرسکون سیاسی ماحول کیلئے زہر قاتل بنتا جارہا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں نچلی سطح سے لے کر بالائی سطح تک کارکنوں کے بہتر سیاسی نظریاتی اور اخلاقی تربیت کے لئے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کریں نفرت اور تعصب کی گردآلود فضاء کو ختم کرنے اور اپنی سیاسی و نظریاتی فکر اور مشن کو عام کرنے کے لیے دوریو کی بجائے قربتوں کی ضرورت ہے نفرت اور تعصب کی بجائے محبت اور اخوت کی فضا کو فروغ دینا ضروری ہے اور یہ سب تب ممکن ہے جب ہر سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کو ان باتوں کا پابند بنائیں خاص کر سوشل میڈیا کے استعمال میں انہیں ان چیزوں کا پابند بنانا ضروری ہے بدقسمتی سے آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا جہاں ایک طرف ذرائع ابلاغ کا آسان اور سستا ذریعہ بن چکا ہے تو دوسری جانب انکی خامیاں غلطیاں اور فتنہ و فساد کی بھی ایک طویل فہرست ہے معاشرتی بگاڑ میں ہزار خامیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی فضا میں بھی انہوں نے کسی کو نہیں بخشا سیاسی کارکن سے لیکر قومی قیادت تک کے خلاف منفی پروپیگنڈہ گالم گلوچ انکے تصاویر بگاڑنا اور ان کے ساتھ غیر اخلاقی تصاویر ٹیگ کرنا بلاتصدیق منفی پوسٹوں کے ذریعے زہر اگلوانا جیسے منفی اور غیر مہذب حرکات میں ملک کے سیاسی ماحول کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقدار قبائلی روایات اور اخلاقیات کا بھی جنازہ نکالا جو ایک بہت بڑا المیہ ہے اگر ہر جماعت اپنے کارکنوں کو اس بات کا پابند بنائیں کی سیاسی اختلاف کی آڑ میں الزام تراشی بہتان بازی کسی کی ذات پر زاتی تنقید کرنا ان پر کیچڑ اچھالنا انہیں برے القابات سے نوازنا جیسے غیر مہذب غیر اخلاقی اور غیر سیاسی عمل سے مکمل اجتناب پارٹی ڈسپلن کا حصہ قرار دیکر انکی خلاف ورزی کرنے پر دستوری سزا بھی متعین کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں سیاسی کارکنوں کی جانب سے جاری طوفان بدتمیزی کا مکمل خاتمہ ہوگا اور جذباتی کارکنوں کی جانب سے کسی بھی سطح پر کسی بھی قومی قیادت کی توہین اور بےعزتی نہیں کی جائینگی۔
بدقسمتی سے آج معاشرے میں انتشار اور بگاڑ کا سبب غیر تربیت یافتہ سیاسی کارکن ہے ان کا غیر سنجیدہ اور جذباتی پن معاشرے میں نفرت اور تعصب کا سبب بن رہاہے دیکھا جائے تو اس سارے عمل میں قصوار کارکن یا لیڈر شپ میں سے کون ہے؟ تو اس سوال کے جواب سے بھی شائد بہت سے لوگ عاجز ہوں المیہ یہ ہے کہ بعض جماعتوں میں سنیارٹی اور قابلیت کی بنیاد بداخلاقی اور بد تہذیبی میں ثانی نہ رکھنے کا پیمانہ ہی ہوتا ہے بد اخلاق بد تہذیبی اور دوسرے جماعتوں پر کیچڑ اچھالنے والے کو سوشل ایکٹیویسٹ کا نام دیاجاتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ پھر جب یہی بندہ اپنی جماعتی امور میں اختلاف کا شکار ہوجائے تو پھر وہ اپنی جماعت اور قیادت کو بھی نہیں بخشتا لہذا کل کے اس عمل سے بچنے کیلئے آج ہی انکی بہتر تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے انہیں اس بات کا پابند بنایا جائے کہ تہمت گالم گلوچ بہتان بازی اور غیر اخلاقی رویہ سیاسی کارکن کا شیوا نہیں دلیل شائستگی اور خوش اخلاقی سے مخالف کو مطمئن کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہی سیاسی کارکن ہوتا ہے امید ہے کہ جمعیت علماء اسلام کی جانب سے آج کا منعقدہ ورکرز تربیتی کنونشن کارکنان جمعیت کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی کارکنوں کے لئے بھی تربیت کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اسی طرح دیگر جماعتوں کو بھی اپنے کارکنوں کی بہتر تربیت کے لیے اسی طرز کے پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ محبت اخوت اور احترام ہر جماعت کے کارکن کا زینت بنے۔