علم و ادب اور تہذیب و شائستگی کے پیکر پشتو ادب کے ممتاز شاعر و ادیب عمر گل عسکر مرحوم کے پہلی برسی پر خصوصی مضمون

0 168

زندگی و موت کا کھیل و دانش مندی دونوں کا خوبصورت اور معنی خیز سفر جاری ہے، خوش قسمت وہ افراد مرد و خواتین جو ان دونوں مراحل زندگی و موت کو فعال و توانا کردار کے ساتھ برتیں ہمارے معاشرے میں زندگی کی رواں کہانی کے لئے کچھ ضروری اقدامات و نقشہ گری ادب اور تہذیب کے دائرے میں موجود ہیں لیکن موت سے عمومی طور پر کراہت و کنارہ کشی ہی برتی جاتی ہے جبکہ ادب و ثقافت اور علم و حکمت کے شاہکار آخری الہامی کتاب قرآن کریم نے زندگی سے پہلے موت کا تذکرہ کیا ہے سورہ المک کے دوسرے آیت مبارکہ میں,,الذی خلق الموت و الحیا لیبلوکم ایکم احسن عملا،،یعنی موت و حیات کا کشمکش زندگی کے بنیادی تصورات اور زندہ سوالات کا جواب ہی طئے کرتے ہیں شائد روزمرہ کے معمولات میں اب پیدائش انسانی یعنی زندگیوں کا آغاز اور اختتام زندگی عارضی یعنی دوسرے مرحلے زندگی میں منتقل ہونے کے مرحلے موت اب زیادہ کارگر و موثر نہیں رہا جسے اب نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقائ و فکری و سائنسی شعور کی بیداری و احیائ کے روشنی میں علم و ادب اور تہذیب و معاشرت کے خاوندان عقل و دانش کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ممکنہ طور پر معنویت اور مقصدیت اوبھر سکیں اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو ممکن العمل بنانے میں علم و ٹیکنالوجی اور ادب و ثقافت کارگر و موثر ہوسکیں_ بادش بخیر موت و حیات کے اس فلسفے و کشمکش میں مبتلا انسانی سوسائٹی میں اپنے پیارے دوست اور ممتاز دانشور و لیکوال ، پشتو زبان کے نامور شاعر و ادیب جناب عمر گل عسکر مرحوم کے پہلی برسی پر ان کی زندگی و سماجیات کو یاد کرتے ہیں عسکر مرحوم نے بدھ کے دن ہی موت سے گلے لگانا تھا ابھی 08 دسمبر 2021ئ کے صبح جنگ کوئٹہ میں کے ادبی صفحہ پر شائع شدہ پشتو محفل میں ان کے تصویر و دانش مندی سے بھرپور پشتو محفل سے استفادہ حاصل کیا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں نوجوان دوست کلیم اللہ کاکڑ نے بتایا کہ عمر گل عسکر صاحب کے وفات پانے کی خبر ہے میں نے ان کے فون نمبرز پر رابطہ کیا تو ان کے صاحب زادی اور گھر والوں سے رابطہ کے نتیجے میں تصدیق کی گئی کہ آج علی الصبح ہی وہ فوت ہوئے ہیں رب العالمین آسانی فرمائیں مغفرت کاملہ عطا ئ فرمائیں جنتوں اور راحتوں کے آمین بنادیں،،،جناب عمر گل عسکر صاحب سے پیچلھے دو بلکہ تین دہائیوں سے تعارف تھا یعنی ہم ادبی صفحہ پر ان کے کالم پڑھتے تھے لیکن ملاقات ابھی کرونا وائرس کی ہولناکیوں سے تھوڑی دیر پہلے یعنی 2019 ءکے وسط میں ہوئی جب مجلس فکر و دانش کے تحت علمی و فکری مکالمے کے سلسلے میں مفید اور تعمیری مباحث و فکری مکالمے کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق زندگی کی تشکیل و تعبیر نو کے تلاش و جستجو اور تخلیق و تدبیر کے لئے ہم نے نئی جہتیں تلاش کرنے کی ضرورت سمجھا اور مستقبل بینی اور مستقبل گیری کے لئے ادیبوں و حکمائ سے رابطے و گفتگو کے لئے کوششیں شروع کیں گئیں یوں دوریش صفت اور صاحب اسرار شخصیت و کردار کے مالک عمر گل عسکر صاحب سے ملاقات ہوئی اور وہ جلد ہی مضبوط اور مستحکم تعلق میں بدل گئی، وہ ایک مجلس و محفل میں تشریف لائے اور بھرپور طور پر محظوظ ہوئے اور پھر مجلس فکر و دانش کے محافل و مکالموں کے شریک کار بنے رہے جناب عمر گل عسکر صاحب نے علامہ محمد اقبال رحم اللہ علیہ پر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب کی مشہور زمانہ کتاب,,مباحث خطبات اقبال،، اور کوئٹہ گوشہ ادب سے شائع ہونے والے قیمتی کتاب,,, کمال اقبال اور اکیسویں صدی،، کا بغائر مطالعہ فرمایا اور ڈاکٹر محمد عارف خان کے,,,قرآن حکیم کے ضابطے توسیعی و تجدیدی ضرورت،، کو پشتو زبان میں ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر کام شروع کردیا اور کہا کہ علم و ترقی اور خوشحالی و دانش مندی کے جوہر اب ہاتھ آئے ہیں زندگی ویسے ہی بھول بھلیوں میں کھو کر گزاری ہے علامہ محمد اقبال رحم اللہ علیہ کے فکری دھارے اور ذہنی و ادبی چاشنی کا کمال یہی ہے کہ وہ اچھے ذوق کے لطیف شخصیت و کردار کو اپنے ساتھ لے کر موثر اور مفید نکات کے لئے چلنے پر آمادہ کرتے ہیں ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم اور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان علامہ محمد اقبال رحم اللہ علیہ کے افکار و تصورات اور زندہ سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے لئے کوشاں دو ایسے مفکرین و حکمائ لمحہ موجود ہیں جو درست سمت میں لائحہ عمل تشکیل دینے اور تعمیری مباحث و دانش مندی کی آرزو مندی جگانے کی کوشش کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقائ و فکری مکالمے کے سلسلے میں فرد و معاشرت کو تیار کرتے ہیں بیدار مغز ادیب و دانش ور کی طرح جناب عمر گل عسکر فوری طور پر اس نئے پیراڈایم میں علمی و فکری مکالمے اور منظرنامہ کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے تیار ہو کر اپنے حصے کی شمع روشن کرنے میں جھت گئے لیکن ضعف معدہ و جگر اور جسمانی و ذہنی تھکاوٹ کے باعث وہ نڈھال ہو کر رہ گئے تھے اور اوپر سے کرونا وائرس کے خوف و دہشت کے باعث محدود ہوگئے تھے ، لیکن اپریل 2021 ئ میں ان کی خوشی و مسرت کا اظہار جوبن پر تھا جب استاد محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب برطانیہ سے پاکستان اور پھر ہفتہ و عشرے کے لئے کوئٹہ تشریف لائے وہ دو تین مجالس میں تشریف لائے اور,,قرآنی شعور اور مادی افادیت کا سوال،، کے عنوان سے منعقدہ تقریب و مکالمہ میں شرکت و گفتگو فرمائی اور پھر زرغون روڈ کے پر سکون و اطمینان بخش ماحول میں مہمان گرامی سے ملاقات ہوئی جو گھنٹوں پر محیط تھی اور وہ اس پر بھرپور توانائی و دانش مندی سے یکسو ہوگئے تھے کہ علمی و فکری شجرہ نسب رکھنے والے حکمائ و مفکرین جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان،جناب ڈاکٹر برہان احمد فاروقی،جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی رح،جناب ماھر قرآنیات و اقبالیات مرحوم ڈاکٹر محمد رفیع الدین،حکیم الاامت حضرت علامہ محمد اقبال رحم اللہ علیہ اور اکابرین امت جناب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور جناب علامہ سید جمال الدین افغانی اسدآباد ی کے افکار و نظریات اور تصورات و دانش مندی کا خلاصہ و ممکنہ طور پر نتائج مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی سے استفادہ حاصل کیا جائے اور 21 ویں صدی میں تعمیر نو و فکری مکالمے کی کاوشیں قابل قدر انداز میں پیش کیا جاسکے اس لئے ان کا پہلا قدم ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کے قرآنی افکار و تصورات کی روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی جہتیں تلاش کرنے کی کوشش کے طور پر استاد محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی فکر و دانائی کا خلاصہ مختصر طور پر پشتو زبان میں ترجمہ کرنے کا تھا جس کے لئے انھوں نے دونوں مفکرین ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم اور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب کے کتب و رسائل کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا جو ضعف و کمزور نظر و جسم کے باوجود ان کے لئے نئے سرے سے تعمیر و ترقی اور فروغ و ترویج فکر و نظر کا باعث بنا اسی سلسلے میں علامہ محمد اقبال رحم اللہ علیہ پر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب کے براہ راست کام سے واقفیت کے لئے دونوں مستند اور معتبر کتابوں کے مطالعے میں محو ہو گئے ان مراحل سے گزر کر ہی انھوں نے ترجمہ و تشریح لکھنے کا آغاز کیا گیا لیکن معلوم نہیں ہوتا ہے کہ زندگی کتنی دیر ساتھ دیتی ہےاور یوں وہ 08 دسمبر2021 ئ کو آخرت کو سدھار گئے کہ موت اچانک ہی زندگی کے خاتمے کا اعلان کردیتی ہےہم ان کے جنازے میں شریک تھے جہاں اہل علم و ادب اور شاعر و ادیب ان کے تذکرے و فکری دھارے بیان فرمارہے تھے ابھی اظہار خیال اور ممکنہ طور پر ان کی شخصیت و فن اور علم و ادب سے شناسائی و فکری دانش مندی پر لکھنے کی ضرورت ہے کہ نئے نسلوں کو آگاہی حاصل ہوسکے اور بزرگوں و خدمات انجام دینے والے دوستوں کے محنت شاقہ ،وسعتِ نظر اور تعمیری و فکری ماحول سے نسلوں کو آگاہی حاصل ہو اور استفادہ حاصل ہو میں ہفتہ سفر پر لوٹنے سے واپسی پر اپنے بزرگ دوست اور فعال ادبی شخصیت جناب نسیم صبا کاکڑ صاحب کے ساتھ مرحوم عمر گل عسکر صاحب کے گھر تعزیت و ہمدردی اور محبت و عقیدت پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ان کے صاحب زادوں سے ملاقات ہوئی اور بتایا گیا کہ عسکر صاحب نے اپنے صاحب زادی سے سوشل اسٹڈیز و اقبالیات میں اعلیٰ تعلیم دلایا ہے محترمہ اب والد محترم جناب عمر گل عسکر مرحوم کے افکار و تصورات اور موجود علمی و ادبی اثاثوں پر توجہ و نگرانی فرمائیں گے انشائ اللہ تعالیٰرب العالمین آسانی فرمائیں حفاظت فرمائے برکتوں اور رحمتوں سے نوازے اس خانوادے علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کے خوگر خاندان کوجناب عمر گل عسکر صاحب نے پسماندگان میں اہلیہ صاحبہ ،دو صاحب زادیاں اور تین صاحب زادگان کے ساتھ علم و ادب اور شاعری و تعلیمات دانش مندی کا ذخیرہ بے بہا ورثے میں چھوڑا ہے عمر گل عسکر صاحب کے وفات پانے کی اطلاع برطانیہ میں مقیم جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب کو دی گئی تو آہ بھرتے ہوئے ان کا مختصر تبصرہ موصول ہوا کہ آپ کے ساتھ ملاقات ممکن ہوئی بہت نیک فطرت اور خوبصورت انسان تھے علم و ادب اور شاعری و دانش مندی سے بھرپور عقیدت و محبت ان کا خاصہ تھا رب العالمین خاندان اور دوستوں کو صبر جمیل عطائ فرمائے اور ہمیں ان کے پسماندگان و دوستوں کے حلقے میں متبادل عطائ فرمائے تاکہ ان کے شروع کئے گئے ادھورے خواب و خیال کو تقویت دینے کا سبب بن سکیں،، اور خود مرحوم عمر گل عسکر صاحب نے استاد محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب کی ان الفاظ میں اپنے کالم پشتو محفل میں 25 اگست 2021 کے ادبی صفحے پر,,, دیگر دانائے راز آید کہ نہ آید،، کے عنوان سے درج ذیل الفاظ میں تذکرہ خیر فرمایا تھا کہ,,, ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحم اللہ علیہ نے اپنے ایک طرح سے آخری قطعہ میں جو کہا تھا کہ,, دیگر دانائے راز آید کہ نہ آید،، تو ایک طرح سے ٹھیک ہی کہا تھا کیونکہ ابھی تک تو علامہ کی طرح کوئی دوسرا دانائے راز پیدا نہیں ہوا کہ جب کسی نے ابھی تک علامہ اقبال کو صحیح معنوں میں پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ہے تو دوسرا کیوں کر پیدا ہوگا_ لیکن اگر ہم اس بات کو ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو ایک لحاظ سے دیگر دانائے پیدا ہوچکے ہیں وہ یوں کہ اقبال اکیڈمی کے قیام سے چیدہ چیدہ صاحبان فکر و دانش نے بے شک علامہ کے افکار کے مختلف پہلوو¿ں کو نمایاں کرنے کی کوشش ضرور کی ہے،لیکن اس کا مکمل احاطہ شائد کوئی کرسکا ہو_ مجھے اپنے مطالعہ پر کوئی زعم نہیں ہے اپنی اب تک کی مصروف زندگی میں جب جب بھی موقع ملا، علامہ کو پڑھنے اور سمجھنے کی بھرپور کوشش کی ہے_ میں خود کو اس حوالے سے طفل مکتب سمجھتا ہوں_ تاہم زندگی کے اس جاری سفر میں اکیسویں صدی کے اکیسویں برس چند ایسی کتابیں پڑھنے کا موقع میسر آیا کہ مجھے علامہ کے سمجھنے کے ساتھ ساتھ دانائے راز کی سمجھ بھی آنے لگی_ دیر آید درست آید کے مصداق ہی مجھے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آخری عمر میں بھی اگر مسلمان یونا ٹھہرا تھا تب بھی کیا مضائقہ ہے کہ کسی بھی انسان کا ذہنی و فکری ارتقائی سفر تو آخری سانسوں تک جاری رہتا ہے اور یہ تحقیق کائنات کو سمجھنے کا سفر ہے جو ہر انسان کو درپیش رہتا ہے اور اسی میں انسان کی بقائ کا راز مضمر ہے_ ،،، افسوس کہ عمر گل عسکر مرحوم کی خوشی و مسرت بہت ہی مختصر ثابت ہوئی اور بقول ان کے اکیسویں صدی کے اکیسویں برس کے اختتام سے بھی پہلے یعنی 08 دسمبر 2021ئ کو موت نے انھیں جکڑ لیا یقننا ہم سب نے اپنے وقت مقررہ پر موت کا سامنا کرنا ہے,,کل نفس ذائقہ الموت،، 25 اگست 2021 ئ کے کالم میں وہ اگے لکھتے ہیں کہ ,,, اس تمہید کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی تعریف و توصیف کرنا ،گو کہ میں خود کو اس قابل نہیں پاتا،جو ان کا حق بنتا ہے، پروفیسر موصوف براہ راست تو علامہ اقبال کے شاگرد نہیں رہے ہیں مگر انھوں نے ان کے شاگردوں سے جو فیض حاصل کیا ہے یہ اس کا کمال ہے کہ انھوں نے نہ صرف علامہ اقبال کے خطبات پر,,, مباحث خطبات اقبال،،،لکھ کر ہر زاویہ سے ان کے افکار کی تشریح کر ڈالی ہے بلکہ اٹھارویں صدی سے جاری مذہب اور سائنس کے درمیان مباحث کو بھی علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں ایک سمت دے ڈالی ہے اور سائنس بھی جو سارا دارومدار,, مادہ،،، پر کئے بیٹھا تھا، اب ایٹم کی ایجاد کے بعد روحانیت کا قائل ہوتا جارہا ہے_ ہم مسلمانوں نے تو بلا شک و شبہ صدیوں تک سائنس کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ہیں لیکن بعد میں جو کچھ ہوا وہ مسلمانوں کا سائنس سے منہ موڑنے اور تقلیدی روش اپنانے کے سبب ہمارے زوال کا باعث بنا اور ہم ابھی تک اسی روش پر جمے کھڑے ہیں جبکہ مغرب نے مسلمانوں سے ہی سائنس کی ابتدائی اصول سیکھے اور کائنات کا کھوج لگانے میں مصروف ہوگئے_ آج زندگی کی پیشتر سہولتیں سائنس ہی کے طفیل عالم انسانیت کو حاصل ہیں جبکہ مسلم امہ اپنے زوال کے اسباب کو ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے اور اپنے تقلیدی روش پر قائم ہے_ پروفیسر موصوف نے صرف،مباحث خطبات اقبال، لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک اور قیمتی کتاب” کمال اقبال اور اکیسویں صدی،، لکھ ڈالی ( جسے خوشی قسمتی سے کوئٹہ سے ہی گوشہ ادب نے شائع کیا ہے) جس کے بارے میں آپ نے ( ادبی صفحے اور پشتو محفل کے قارئین کی طرف اشارہ ہے) گزشتہ کسی ادبی صفحے میں پڑھا ہوگا_ ( یہاں عمر گل عسکر صاحب مرحوم ڈاکٹر محمد عارف خان صاحب سے اپنے محبت و عقیدت اور تعلق خاطر و تسلسل کا تذکرہ خیر فرمارہے تھے) اپنے تجاویز و قیمتی خیالات کا اظہار وہ اس ذرین و جامع الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ,,, یہاں پر میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خدارا علامہ محمد اقبال کو بغور گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ فرمائیں اور اپنے قومی شاعر و مفکر کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ انھوں نے جو دیگر دانائے راز کی بات کہی ہے تو وہ اب پیدا ہورہے ہیں اور ان میں نہ صرف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان موصوف شامل ہیں بلکہ علامہ اقبال کے براہ راست شاگرد ڈاکٹر محمد رفیع الدین اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی بھی شامل ہیں جن کے پھر پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان براہ راست شاگرد رہ چکے ہیں تو کیوں نہ ارباب اہل دانش و فکر ان تینوں شخصیات کو بنظر غائر پڑھیں اور سمجھیں اور اپنے علم و دانش میں اضافے کا باعث بنیں__،،، مرحوم عمر گل عسکر صاحب نے بطور فرض نبھانے اور شعور و آگاہی کے لئے نوجوانوں اور طلبائ وطالبات کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقائ و فکری مکالمے کے سلسلے میں مفید اور قابل قدر راستہ ہموار کردیا گیا ہے اب اس روایت و دانش مندی کو سنجیدگی سے ایڈریس کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق تشکیل و تعبیر نو کے لئے نئے پیراڈایم میں علمی و فکری اپروچ اور حکمت قرآنی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول میں انسانیت کی فلاح و بہبود اور خوشحالی و اطمینان کے سفر کو جاری رکھا جاسکے،، عمر گل عسکر صاحب کے نصف درجن طبع شدہ کتب موجود ہیں اور بہت سا سرمایہ فکر و دانش کی میراث چھوڑ کر آخرت سدھار گئے ہیں اب ان کے دوستوں اور خاندان سمیت سوسائٹی کا فرض ہے کہ اس سرمایہ فکر و دانش سے استفادہ حاصلِ فرمائیں

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.