مسئلہ کشمیر اور پاکستان کا اصولی مﺅقف
توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے
روح آزادی کشمیر کو پامال کیا
تاریخی پس منظر :
چین ،روس ،بھارت، پاکستان اور تبت کے سنگم پر واقع ڈیڑھ کروڑ انسانوں کا مسکن جنت نظیر وادی کشمیر کی تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے ۔تیسری صدی قبل مسیح میں اشوک کی سلطنت میں شامل کیا گیا اسلام کی آمد سے قبل ہندو بدھ جین اور زرتشتی حکومتیں رہیں کشمیر کے بدھ حکمران ریجن شاہ کے قبول اسلام کے بعد اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوا پہلی اسلامی سلطنت سلطان سکندر نے 1398 میں قائم کی اور ریاست میں شریعت کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریک کو بھی مزید تقویت دی یوں کشمیر چودھویں سے سترھویں صدی تک ایک آزاد مسلم ریاست کی حیثیت سے برصغیر کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتا
رہا ۔
ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کے بعد 1846 میں انگریزوں نے اسے آبادی سمیت 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض ڈوگرہ راجا گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا کشمیر اور کشمیریوں کی فروخت کا یہ سودا ” بیع نامہ امرتسر” کہلاتا ہے جس کے تحت ایک کشمیری کی قیمت سات روپے نانک شاہی لگائی گئی ۔
اقبال نے اس سودے بازی پر ان الفاظ میں تنقید کی تھی
دہقان و کشت و جوے و خیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
غیرت مند کشمیریوں نے بغاوت کر دی۔ گلاب سنگھ نے لاہور پہنچ کر انگریزوں سے مدد چاہی میجر جنرل فتح خان ٹوانہ کی سرکردگی میں فوج روانہ ہوئی اور فتح کے بعد ڈوگرہ سامراج کا خوفناک دور شروع ہوا جو 1947 تک جاری رہا) ۔
تحریک آزادی کا آغاز :
1924 میں قائداعظم کی صدارت میں مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کی حمایت کی قرارداد منظور کی۔ 1931 میں علامہ اقبال نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی اور کشمیریوں کی تحریک کی حمایت کی۔ 1940 کے بعد کشمیریوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم کانفرنس میں نقب لگا کر ایک حصہ نیشنل کانفرنس کے نام سے قائم کر دیا گیا اور کشمیریوں کی تحریک آزادی میں رخنہ اندازی شروع کر دی گئی 19 جنوری 1947 کو آل انڈیا جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے الحاق پاکستان کی تاریخی قرارداد منظور کی مگر بھارتی حکمرانوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کے بیٹے مہاراجہ ہری سنگھ سے ساز باز کر کے قیام پاکستان کے بعد ریاست کا الحاق بھارت سے کرا دیا۔
قائد اعظم اور کشمیر :
محمد علی جناح ؒ نے اپنی وفات سے چند روز قبل یہ فرمایا تھا کہ ”کشمیر سیاسی اور قومی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔کوئی خود دار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کر دے۔“ (کتاب قائد کا پیغام،مرتب سید قاسم محمود صاحب، پاکستان اکیڈمی،6شارع فاطمہ جناح لاہور)۔3جون 1947ءکے تعمیر بند کے فار مولے کے تحت ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے بارے میں جو اصول طے ہو ئے تھے۔اُن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ لیکن جب کشمیریوں کو حقِ خود اداردیت کا موقع نہیں دیا گیا تو کشمیریوں نے اولاً الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی۔ بعد میں 24اکتوبر 1947ءکو سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے اپنی کتاب ”مائی برادر“ میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی کشمیر سے وابستگی اور تشویش کے بارے میں جو اشارہ دیاہے اُس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کشمیر کے بارے میں کس حد تک فکر مند تھے۔ آپ لکھتی ہیں کہ ”قائد اعظم کے آخری ایام میں ان پر جب غنودگی اور نیم بیہوشی کا دورہ پڑتا”۔تو آپ فرماتے تھے کہ کشمیرکو حق ملنا چاہیے۔ انہوں نے آئین اور مہا جرین کے الفاظ استعمال کیے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے 1926ءمیں کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کشمیری رہنما¶ں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اُس وقت اگر چہ کشمیر میں تحریک حریت کے خدو خال زیادہ نمایاں نہیں تھے۔ لیکن کشمیری مسلمانوں کی حالت دگر گوں تھی اور انہیں ہندو¶ں کے مقابلے میں دوسرے تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح دوسری بار1929ءتیسری بار1936ءاور چوتھی بار 1944ءمیں کشمیر گئے۔ جہاں آپ نے نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے اجلاسوں سے خطاب بھی کیا اور کم وبیش ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ کشمیر میں قیام کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح 1946-47میں بھی کشمیر جانا چاہتے تھے۔ لیکن مصروفیت کے باعث نہ جاسکے۔1935ءمیں قائد اعظم کے دورہ کشمیر پر ایک عظیم الشان جلسہ سرینگر پتھر مسجد میں منعقد ہوا۔ جون1944ءمیں مسلم کانفرنس کا سالانہ جلسہ قائدا عظم محمد علی جناح ؒ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ چوہد ری غلام عباس کے سپاسنا مے کے بعد قائد اعظم نے کشمیروں سے خطاب فرمایا:”جب میں اس جلسے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے خوشی اور یقین ہوتا ہے کہ مسلمان اب جاگ اُٹھے ہیں اور وہ مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے کھڑے ہو گئے ہیں۔ میں ایک مہینہ سے یہاں مقیم ہوں اور اس عرصے میں میرے پاس ہر خیال کے آدمی آئے ہیں۔میں نے دیکھا کہ 99فیصد جو میرے پاس آئے ہیں مسلم کانفرنس کے حامی ہیں۔میں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ صاف صاف اور کھلے الفاظ میں اعلان کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔ عزت کا صرف ایک راستہ ہے وہ ہے اتحاد واتفاق، ایک پر چم، ایک نصب العین اور ایک پلیٹ فارم اگر آپ نے یہ حاصل کر لیا تو آپ یقیناً کامیاب ہوں گے۔مسلم لیگ اور ہماری خدمات،تائید و حمایت آپ کے قدموں پر ہو گی۔1946ءمیں جب کانگریس رہنما جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسا نے کیلئے سخت کوشش کر رہے تھے تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک بار پھر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کر تے ہوئے اپنی رہنما ئی عطا کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا: میں جموں وکشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اتحاد و یگا نگت کو بہر کیف بر قرار رکھیں اور چوہدری غلام عباس کی قیادت اور مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع رہیں۔14اگست 1947ءکو پاکستان تو بن گیا۔ لیکن کشمیر کا مسئلہ لٹک گیا۔ جو آج تک سردمہری کا شکار ہے۔
1965 کی جنگ:
1965 کی جنگ میں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے۔ یہ سنہ اپریل 1965 اور ستمبر 1965 کو ہوا جب ایک فریق (بھارت) نے بین الاقوامی سرحد کو عبور کیا دوسرے فریق ثانی (پاکستان) پر جنگ ( باقی صفحہ 5 نمبر 29)