بلوچستان کے مسائل کا حل باڈر ٹریڈ کےوسیع امکانات کا مثبت استعمال!!! وزیراعظم پاکستان کے نام!!!
سرحدی تنازعات ،مشرق میں نہایت الجھا ہوا مسئلہ ہے جبکہ مغرب نسبتاً محفوظ و مامون ہے ،ہم تھوڑے سے غور وفکر اور تحقیق و جستجو سے مغرب اور یورپ کے آج کی آسودگی و اطمینان کا تصور کر سکتے ہیں کہ کس طرح آسانی سے دو ممالک کے بارڈرز نارمل ہیں، اور کاروبار زندگی بخیر و خوبی انجام پاتے ہیں،
کیا مشرق میں
21 ویں صدی کے بائیس ویں سال 2022ء میں بھی کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری کے بعد بھی غربت و خستہ حالی کے خاتمے اور خلق خدا کے رشتہ احترام اور معزز انسانی تعلقات نہیں پنپ سکتے ہیں،ہمارے پاس بیشتر مسائل انگریزی استعمار کے ورثے اور شرارتوں کے باعث الجھ کر رہ گئے ہیں،، کشمیر کا مسئلہ ہو ،کردوں کی تقسیم در تقسیم ہو یا پشتونوں کا مسئلہ ہو یا خود بلوچوں کی مشکلات ہوں ، خطے کے دیرینہ مسائل کے اصل شاخسانے کا سہرا انگریزوں تک جاتا ہے،انگریزی استعمار ہی اس خطے کی آزاد اقوام اور تاریخی جغرافیہ کا حقیقی دشمن رہا ہے ہمیں آپس میں لڑنے جھگڑنے کی بجائے اپنی توانائی ان پیچیدہ مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کرنے والی قیادتوں کے ہاتھ مضبوط کرنےمیں صرف کرنی چاہیے نہ کہ افراتفری اور محدود ذہنیت کے فروغ کے شیطانی کھیل کی طرف جانا چاہئے،،،
بلند پایہ وسیع و زرخیز قیادتوں کے ہاتھ ھی ترقی و امن کی کنجیاں ہیں مسلم امہ اس مثالی معاشرے کی تشکیل و تعمیر اور اس اعلی ظرف کی حامل قیادت کی تلاش میں سرگرداں ہے،،
وزیراعظم پاکستان کے جلیل القدر منصب پر اس وقت جناب عمران خان کے بعد اس وقت جناب شہباز شریف فائز ہیں نواز شریف و شہباز شریف سے اختلاف و اتفاق کے باوجود یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان دیرینہ مسائل اور سیاسی و علاقائی تنازعات پر مثبت انداز میں پیش رفت فرمائیں گے ،
خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں مثبت و ثمر بار سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول میں انسانیت کی رہبری و دانش مندی کا رجحان فروغ پاسکے،،
باڈر ٹریڈ اور سرحدی علاقوں میں کمال زندگی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں وفاقی حکومت اور ڈویلپمنٹ اتھارٹیوں و امن عامہ سے متعلقہ اداروں کے نمائندوں کا ایک فعال و متحرک کمیشن و ٹاسک فورس قائم کی جائے جس میں بلوچستان کے بارڈر ایریا و سماجی شعور سے وابستہ 12/15 اضلاع ژوب و لورالائی سے گوادر و چاغی تک نمائندگی موجود ہو،پھر گورنر سیکرٹریٹ ،صوبائی حکومت کے متعلقہ محکمے بطور خاص داخلہ صنعت و حرفت اور ٹریڑ اتھارٹی و زراعت ،لائیو اسٹاک، سرحدی فورسز و قبائل اور سیاسی جماعتوں ، سوشل ڈویلپمنٹ کے اداروں و تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مسلسل رابطے و ترجیحات کے تعین میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق تشکیلات و تعبیر نو کے لئے ورکنگ کا آغاز ہو،،
مجلس فکر و دانش (علمی و فکری مکالمہ) نے اسی سلسلے میں معاشی و ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے کے لئے نئے پیراڈایم کے مباحث و دانش مندی کے لئے,,,اکنامک تھیکنگ فورم،،
کے ذریعے اس اہم ترین مقدمے پر مفید اور تعمیری ماحول میں مکالمے و جرگے کاانعقاد چاہتے ہیں تاکہ ممکنہ طور پر مفید اور ثمر بار سرگرمیاں شروع ہوسکیں اور عوام الناس کی زندگیوں میں ارمانوں و آرزوؤں کی تشکیل و تعبیر نو ممکن العمل ہوسکیں،،
چمن پاک افغان بارڈر پر کشیدگی و قتل و غارتگری کے بعدصوبائی حکومت نے
جولائی 2020ء میں غور وفکر کے بعد افغان باڈر پر مسائل و معاملات کے لئے انتظامی اور عوامی نمائندگان کی کمیٹیاں تشکیل دیں تھی تاکہ ان امور کے متعلق جائزہ لیا جائے
جس میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، ممنوعہ اور غیرممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ، امن وامان کی صورتحال، لغڑی پیکج کے تحت مقامی لوگوں کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغانستان جانے والی اشیاء کو واپس پاکستان لانے کی چھوٹ کے علاوہ دیگر امور پر غوراور دیگر اھم مسائل شامل تھے چونکہ ماضی میں سرحدی کشیدگی اوربدانتظامی کے باعث پاک افغان سرحد کو عارضی طور پر بند کیا جاتا رہاہے، حکومتی سطح پر اعتراف کیا گیا کہ
1۔ روزانہ 12سے 15ہزار افراد دونوں اطراف سے سرحد عبور کرتے ہیں جن میں لغڑی پیکج یعنی دیہاڑی دار مزدور بھی شامل ہیں۔ جبکہ
2۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغانستان جانے والی اشیاء ویش بارڈر پر اتاری جاتی ہیں جن میں سے نوے فیصد اشیاء ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر واپس پاکستان لائی جاتی ہیں،
3۔ اسمگلنگ اور غیر قانونی آمدورفت کی آڑ میں غیرریاستی عناصر کو بھی صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے جس سے کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں امن وامان کا خدشہ موجود رہتا ہے۔
اس پورے تجزیے میں قابل عمل سفارشات پیش کرنے کے لئے
4۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی دو کمیٹیوں کی تشکیل ،
ایک کمیٹی
علاقے میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتو ں کے نمائندوں پر مشتمل تھی جس نے مقامی تاجروں اور لغڑی پیکج سے منسلک افراد کے ساتھ بات چیت کرکے انہیں سرحد کی بندش کے محرکات پر اعتماد میں لے لیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف چیف سیکریٹری کی سربراہی میں انتظامی ذیلی کمیٹی تشکیل پائی تھی ، کمیٹی متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں اور ایف سی کے حکام کے علاوہ چیمبر آف کامرس کے نمائندوں پر مشتمل تھی اس ذیلی کمیٹی نے مسئلے کے مستقل بنیادوں پر حل کے لئے متبادل معاشی سرگرمیوں، بارڈر ٹریڈ کے موثر طریقہ کار، بارڈر مارکیٹوں اور ویئر ہاؤسز کے قیام، امیگریشن اور کسٹمز کی سہولیات اور دیگر سرحدی امور کی باضابطگی سے متعلق سفارشات پیش کرنی تھیں،،
05_ متبادل معاشی سرگرمیوں کے اقدامات سے سرحدی علاقوں میں باقاعدہ اور قانونی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور قانوی تجارت کے فروغ سے حکومت اور مقامی تاجروں کو فائدہ پہنچے گا۔
06_ متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکموں کو حاصل اختیارات کے تحت ملکی مفاد میں فیصلے کئے جائیں گے۔
07_ وفاقی حکومت سے متعلق امور وزیراعظم اور وفاقی حکومت سے رابطے و مذاکرات کئے جائیں تاکہ مسئلہ کا فوری اور مستقل بنیادوں پر حل ممکن بنایا جائے،،
صوبائی حکومت کے اس کاوش کے جائزے کی ضرورت ہے، کیونکہ دو سالوں میں پلوں کے نیچے بہت زیادہ پانی بہہ چکا ہے پاکستان اور افغانستان دونوں میں سیاسی و سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،
ہم دو پہلوؤں سے معاملے کو سمجھنے اور جھانکنے کی ضرورت سمجھتے ہیں ،،
پاکستان اور افغانستان کی تاریخ و تعلقات کی نوعیت اور سرحدی کاروبار یا باڈر ٹریڈ کے تقاضے و قواعد عالمی انسانی احترام و دانش مندی کی آرزو مندی کے پس منظر میں سمجھنے اور ادراک کرنے کی ضرورت ہے ،،،،
تاریخی لحاظ سے پاکستان سے بہت پہلے افغانستان ایک خودمختار اور باوقار خطہ رہا ہے، پاکستان برصغیر کی تقسیم سے قبل مختلف ادوار میں افغانستان کے زیر قبضہ اور عملداری میں رہا ہے کیونکہ ہندوستان تک جانے کے لیے وسطی ایشیا سے آنے والے تمام لشکروں کی گزر گاہ سابقہ پنجاب اور آج کا پاکستان رہا ہے یاعرب سے آنے والے قافلے مکران، بیلہ ، کراچی اور سندھ سے ہوتے ہوئے ملتان تک جا پہنچے تھے۔
تقسیم برصغیر اور انگریزوں کی تاریخی شکست و فنا کے باعث یہ خطہ مسائل والم میں ڈوبا ہوا ہے، کشمیریوں کی تقسیم ریاست پاکستان کے لئے 70 سالوں یعنی لگ بھگ ایک صدی سے چیلنج موجود ہے
کشمیری قوم کے لیے اپنی سرزمین پر ہی ایل او سی یعنی لائن آف کنٹرول خونی لکیر بن چکی ہے اب ناعاقبت اندیشی سے یہی رویہ و ماحول افغان بارڈر پر پرامن و سمجھ داری کے حامل پشتونوں کے لئے بنایا جارہا ہیں،جبکہ جزوی طور پر بلوچوں کے لئے بھی ایرانی بلوچستان کے ساتھ رشتے داری اور صدیوں سے مراسم رہے ہیں،
بنیادی طور پر اقوام کی تاریخ، فطری و جسمانی تعلق اور تاریخ کو جذبات ،جغرافیائی بندشوں اور تقسیم در تقسیم کے اقدامات اور فیصلوں سے کبھی نہیں بدلتے جس طرح جرمنی کے دونوں حصے ہوں یا کوریا و عرب ممالک ہوں ،چائنا کے حصے ہوں یا کشمیر و افغانستان ہو ،،،
پشتونوں کا مسئلہ پاکستان میں اپنی ذہانت و تدبر کے باعث ستر ،اسی سالوں میں کشمیریوں، بلوچوں اور کردوں کی طرح خرابی کی انتہا تک نہیں پہنچا، جبکہ اب کچھ ناعاقبت اندیش رویوں اور پالیسیوں کے بدولت انتہائی انتہا پسندانہ اقدامات کیے جارہے ہیں جو ریاست و خطہ دونوں کے حق میں خطرناک ترین مقدمے کا باعث بن سکتے ہیں، دراصل افغانستان اور پاکستان کا تاریخی ارتقاء ،جغرافیائی تبدیلیوں، تقسیم برصغیر اور حالیہ نصف صدی کی نظریاتی و مفاداتی لڑائی کا شکار رہا ہے جس میں عملاً افغانستان بار بار جل کر خاکستر رہا ہے
اس لئے حوصلے،تدبر،دیانت داری، تاریخی و جغرافیائی حقائق اور سب سے اہم لمحہ موجود کی بدلتی ہوئی دنیا میں سفارت کاری اور معاشی ضروریات و اصولوں اور ٹیکنالوجیز کے پیش نظر دونوں اطراف سے باصلاحیت ،غیرمتنازعہ، نہایت ہی با حوصلہ اور جرات مند قیادتوں کو اس درینہ و پیچیدہ مسئلہ پر پیش رفت کے لیے پہلے ماحول کو سازگار بنانا ہوگا ، سب سے اہم و مشکل مسئلہ ڈیورنڈ لائن اور دونوں ممالک کے ریاستی مقتدرہ اور عوام کی جذباتی کیفیتوں پر مشتمل رویہ ہے مگر بالآخر ہمیں کھل کر اور انصاف و دیانتداری سے اس قضیہ کے حل کرنے کی طرف پیش رفت اور اسے کھل کر ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ،،
ہم عالمی قوانین کے پیش نظر باڈر ٹریڈ کے قوانین اور سرحدی علاقوں کی ضروریات و تکالیف کے باعث اس انسانی المیے کے حل کی طرف آتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کی قومی اسمبلی نے 16 جولائی 2020 کو چار ٹاسک فورسز کے اجلاس سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت منعقد ہوئے، پہلی ٹاسک فورس افغانستان جانے والے کنٹینر ٹریفک کی کلیرنس کے لئے قائم کی گئی ہے، دوسری ٹاسک فورس افغانستان کے ساتھ سرحدی تجارت اور ویزا کے جلد اجراء میں حائل مشکلات کا جائزہ لینے جبکہ تیسری ٹاسک فورس افعانستان سے درآمد کیئے گئے مال پر کسٹم ڈیوٹی بتدریج حل طلب معاملات پر تبادلہ خیال کر چکی ہے جبکہ چوتھی ٹاسک فورس پاکستان آمد اور روانگی کے وقت کنٹینرز کی ٹریکنگ اور اسکیننگ سے متعلق معاملات کا جائزہ لے چکی ہے،،۔
ان ٹاسک فورسز میں دونوں ممالک کے مابین معاملات کے طویل مدتی حل پر غور کیا جارہا ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کو حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لئے سفارشات مرتب کر نے پر کام شروع کردیا گیا تھا،،،
اسپیکر قومی اسمبلی کی پاکستان اور افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت کے لئے افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت عوامی روابط کے فروغ کو بہتر بنانے کی ایک اھم کاوش قرار دیا گیا تھا۔ پارلیمنٹری دوستی گروپوں کا بنیادی مقصد پاکستان اور دیگر دوست ممالک کے مابین موجود خوشگوار تعلقات کو مزید مستحکم بنانا ہے۔ جبکہ سال گزشتہ میں چیئرمین سینیٹ جناب محمد صادق سنجرانی صاحب ایرانی صدر کے تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے ایران گئے تو ایرانی صدر و حکومت سے باڈر مسائل کم کرکے باڈر ٹریڈ اور نئے زمانے کے بدلتے رجحانات اور ضروریات کے مطابق نئے مواقع پیدا کرنے کی درخواست کی گئی ہے، جبکہ ایران کے ساتھ ساحلی علاقوں سمیت کوئٹہ و قرب و جوار کی بجلی و گیس کی فراہمی کے معاہدے اور سماجی ترقی و خوشحالی کے لئے پیش رفت انتہائی ضروری ہے، ایران کے ساتھ متصل چاغی سے لے کر گوادر تک عملاً دو ڈویژن یعنی رخشاں ڈویژن اور مکران ڈویژن کے کاروبار و غذائی ضروریات کا پورا انحصار ایرانی مصنوعات پر ہیں،
افغانستان و ایران دونوں کے ساتھ امن و آشتی اور ترقی و انسانی احترام و تکریم انسانیت بنیادی انسانی حقوق اور سماجی شعور میں پہلی اینٹ کی مانند ہے۔
مسلمان مفکرین کو مسلمان سوسائٹیوں اور ریاستوں کے لئے قرآن کریم کی آیتوں کی ازسرنو تعبیر و تشریح لکھنا ھوگی کہ ایک انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے جبکہ ایک انسان کی زندگی پوری انسانیت کی بقاء و سلامتی کی زندگی ہے،،
ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سیاسی اسٹیس کو توڑا جائے،
ڈیورنڈ لائن پر براہ راست رابطے،مذاکرات اور عالمی قوانین و اصولوں کے مطابق افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے،،
بحیثیت مجموعی چمن سے لے کر تفتان بارڈر اور گوادر سے کاکڑ خراسان تک اور ماشکیل سے افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارے رشتے و ناطے زندگی،ایمان ،معاشرت اور بھرپور و توانا تجارت و بارڈر ٹریڈ کی ھیں اور یہ کہ بے اعتمادی اور نالائقی،بے جاء لڑائی اور اپنے بہادر و معتبر اقوام کی تذلیل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ھوگا،،،
درج ذیل اقدامات فوری طور پر کرنے کے ھیں،،
الف۔ باڈر ٹریڈ کے قوانین اور ضوابط کے مطابق افہام وتفہیم کے ساتھ مستقل و پائدار امن و امان اور مربوط بزنس کے لئے جامع طریق کار اختیار کرنے میں دیر نہ کی جائے،
ب ۔ افغانستان اور پاکستان نے بلاآخر ڈیورنڈ لائن کے متنازع و کشیدہ معاہدے اور معاملات پر گفتگو اور مذاکرات کرنے ھیں افغانستان کے حکومتی سٹرکچر اور اولس براہ راست رابطے اور مذاکرات سے پہلو تہی کرکے ایک اور آگ سلگانے و بڑھکانے کا تماشائی نہ بنیں بلکہ تاریخ کے اوراق میں ان نازک ترین صورتحال میں بھرپور کردار ادا کرنے کے لئے آسانیاں فراہم کریں،
ج۔ اگر براہ راست رابطے و مذاکرات حکومتوں کے لئے ناقابل رسائی ھیں تو دونوں اطراف سے قابل احترام و قابل اعتماد شخصیات کی کاوشیں بروئے کار لانے کی مشترکہ کوشش شروع کردی جائے جو بلاآخر ایک گرینڈ پاک افغان جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ کریں جو سرحدی علاقوں کے مسائل کے حل کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی جستجو و فیصلہ سازی کے کمیشن و جرگہ میں تبدیل ہو،اس کمیشن و جرگہ میں اعلیٰ دماغ اور قابل قبول معتبر و حالات کو سمجھنے،ادراک رکھنے اور عوام وخواص کے ساتھ حکومتی سٹرکچر اور تاریخی ارتقاء پر نظر رکھنے و اثر انداز ہونے والے شخصیات شامل کی جائیں،
یہی مشق اور فریم ورک بعد ازاں ایران،ھندوستان ،بنگلہ دیش اور چائنہ کے ساتھ اختیار کرنے کی ضرورت ھے۔
باڈر ٹریڈ پر رسمی کاروائیوں کے بجائے تعمیری اور مثبت و ثمر بار سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جائیں گے۔###
[…] وزیراعظم کا این سی اوسی کو فوری بحال کرنے کا حکم […]