متاعِ زیست کی رونمائی ۔ ندیم مرزا کی راہنمائی اور فخالد شریف کی مسیحائی
منشا قاضی
حسب منشا
روائتی طور ، طریقہ ، انداز اور اسلوب میں ڈھلی ہوئی ہزاروں ادبی ، ثقافتی ، سیاسی ، حکومتی اور عالمی تقریبات کی نقابت و نظامت کی ہے ، مگر محترم خالد شریف نے مجھے متاعِ زیست کی رونمائی میں جو مسیحائی کی ہے اس کے سحر میں سامعین ابھی تک اس کی تاثیر میں ڈوبی ہوئی اکسیر جھیل سے باھر نہیں آئے ہیں ، اس تقریب کو پرشکوہ ماحول کا لباس خالد شریف نے اور اس کو حسن و جمال کا تاج 👑 پہنانے میں ندیم مرزا کے سلیقہ شعار ذہن کے بطن سے جنم لینے والے دستاویزی تعارفی اوراق کی جدت نے تخلیق کیا اور ابھی تک سامعین کے آئینہ ء ادراک پر رنگ و نور کی طرح رقصاں ہے ، گویا متاعِ زیست کی رونمائی تقریب مثالی تقریب کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا ، متاعِ زیست میری متاعِ جاں ہے اور سامعین اپنی کتاب زیست کے اوراق پلٹ رہے تھے ، ڈاکٹر حبیب الرحمن سالک کی پوری شاعری میں جو چیز عالب ہے وہ آپ کا آسمانی تخیل ہے ، اگر میں انہیں منتہائے خیال تک پرواز کر جانے والا شاعر کہوں تو بالکل بجا اور روا ہو گا ، میں اپنے محسن خالد شریف کے حسنِ سلوک اور حسنِ انتخاب کا تذکرہ نہ کروں تو ناانصافی ہوگی ، آپ نے ڈاکٹر حبیب الرحمن کے بارے میں جو غائبانہ بتایا میں نے اس سے بھی پانچ گنا زیادہ پایا ، ویسے بھی سنی ہوئی بات سے دیکھی ہوئی چیز زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور آج متاعِ زیست نے ہماری جو لٹ گئی تھی وہ لوٹ آئی ہے ،
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا ہے غمزہ ء خونریز اے ساقی
متاعِ زیست کی رونمائی ۔ ندیم مرزا کی راہنمائی اور خالد شریف کی مسیحائی
روائتی طور ، طریقہ ، انداز اور اسلوب میں ڈھلی ہوئی ہزاروں ادبی ، ثقافتی ، سیاسی ، حکومتی اور عالمی تقریبات کی نقابت و نظامت کی ہے ، مگر محترم خالد شریف نے مجھے متاعِ زیست کی رونمائی میں جو مسیحائی کی ہے اس کے سحر میں سامعین ابھی تک اس کی تاثیر میں ڈوبی ہوئی اکسیر جھیل سے باھر نہیں آئے ہیں ، اس تقریب کو پرشکوہ ماحول کا لباس خالد شریف نے اور اس کو حسن و جمال کا تاج 👑 پہنانے میں ندیم مرزا کے سلیقہ شعار ذہن کے بطن سے جنم لینے والے دستاویزی تعارفی اوراق کی جدت نے تخلیق کیا اور ابھی تک سامعین کے آئینہ ء ادراک پر رنگ و نور کی طرح رقصاں ہے ، گویا متاعِ زیست کی رونمائی تقریب مثالی تقریب کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا ، متاعِ زیست میری متاعِ جاں ہے اور سامعین اپنی کتاب زیست کے اوراق پلٹ رہے تھے ، ڈاکٹر حبیب الرحمن سالک کی پوری شاعری میں جو چیز عالب ہے وہ آپ کا آسمانی تخیل ہے ، اگر میں انہیں منتہائے خیال تک پرواز کر جانے والا شاعر کہوں تو بالکل بجا اور روا ہو گا ، میں اپنے محسن خالد شریف کے حسنِ سلوک اور حسنِ انتخاب کا تذکرہ نہ کروں تو ناانصافی ہوگی ، آپ نے ڈاکٹر حبیب الرحمن کے بارے میں جو غائبانہ بتایا میں نے اس سے بھی پانچ گنا زیادہ پایا ، ویسے بھی سنی ہوئی بات سے دیکھی ہوئی چیز زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور آج متاعِ زیست نے ہماری جو لٹ گئی تھی وہ لوٹ آئی ہے ،
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا ہے غمزہ ء خونریز اے ساقی
متاعِ زیست کا ہر شعر میری کتاب دل کا دیوان ثابت ہوا ، دیوان غالب اور کلیات اقبال میری دسترس میں ہیں اور اب کتاب زیست بھی میرے سرھانے رکھی ہوئی ھے ، صدائے عشق ، آداب عشق اور دشت تشنگی کے بعد ہی کتاب زیست آ سکتی ھے ، متاعِ زیست پہلے آ ہی نہیں سکتی تھی ، متاعِ زیست ، میں میں نے تو زیست کا مزہ پا لیا ھے ، یہی مزہ اور لطف متاع گراں مایہ ٹھہری ہے ، نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ،
جس نے بھی درد عشق سے راحت کشید کی
اس کو رہی ہمیشہ تمنا مزید کی
تو ڈھونڈتا رہا جسے وہ دور تو نہیں
آئی صدا قریب سے حبل الورید کی
پھر ہے نظر کے سامنے اک کربلا میرے
پھر آئے ہیں وہ لینے کو بیعت یزید کی
کتاب عزیز کی تقریب رونمائی میں جدت راضی کا سارا کریڈٹ جناب ندیم مرزا کے کرتا سے اعزاز پر سبط ہونا چاہیے انہوں نے ایک نئی روایت پیدا کی ہے اور میرا خیال ہے کہ انے والے مصنفین کے لیے انہوں نے جو جدت راضی کی رسم ایجاد کی ہے اس پر چل کر ہی وہ کامیاب اور بہترین سامعین اور قارین
دشمن ہوئے ہیں جان کے سالک رقیب پھر
کانوں میں جب بھنک پڑی گفت و شنید کی
شاعری خوبصورت چہروں سے لے کر تاریک غاروں تک محیط ہے ، میری کتاب زیست میں متاع زیست قندیل کی طرح فروزاں رہے گی ، جس تقریب کے عقب میں خالد شریف جیسے عظیم المرتبت انسان کا منصوبہ ساز ذہن کار فرما ہو اس کی کامیابی یقینی ہے ، کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر حبیب الرحمن کی شاعری ہمالہ کی رفعتوں سے ہمکنار ہے ، آپ نے جس حسین انداز میں شاعری کی ہے ، قافیہ اور ردیف میں استادی نظر آتی ہے یہ بہت کم شاعروں کے حصے میں ائی ہے ، متاعِ زیست کی رونمائی کی تقریب میں صدارت کی کرسی پر خالد شریف کی جلوہ افروزی تھی مگر ہم نے وہاں ڈاکٹر محمد کامران خان کو دیکھا اور مہمان خصوصی ہمارے شعر و ادب کے محسن فضیلت مآب انجینئر توقیر احمد شریفی تھے ، جن کی موجودگی ماحول میں آسودگی پیدا کرتی ہے اور وہ ہمارے ملک کے نامور شاعر تو ہیں ہی لیکن ان کا نام خدمت انسانی کے حوالے سے معروف ہے ، نقابت و نظامت کی ذمہ داری جس خوبصورتی اور جمالیاتی پہلو کو نمایاں رکھتے ہوئے عزت مآب خالد شریف نے کی یہ متاعِ زیست کے مصنف کے لئیے دوگونہ مسرت کا اظہار ہے ، محترمہ فرحت زاہد ، محترمہ نوین روما ، محترم ندیم مرزا نے صاحب کتاب ڈاکٹر حبیب الرحمن سالک کی پوری زندگی کی کتاب کے اوراق زریں کو دھرایا اور اپنے اشعار سنا کر عبقری سامعین سے خوب داد وصول کی ، ندیم برلاس کا اخلاص اور محبت کا اظہار داد و تحسین کے ڈونگرے ان پر برسائے جا رہے تھے ندیم احمد نے واقعی روائتی اور قدیم تقریبات رونمائی کی روایات سے ہٹ کر جو نئی جدت پیدا کی ھے وہ بڑی حد تک کامیاب اور مؤثر ترین ثابت ہو گی ، کتاب اور صاحب کتاب کو تادیر یاد رکھا جائے گا ، جس طرح ہم لذت کام و دہن کے اسباب تو بھول گئے ہیں لیکن متاعِ زیست کو ہم نے متاعِ جاں بنا لیا ھے ، لذت عارضی اور مسرت دائمی ہوتی ہے ، متاعِ زیست کے ڈاکٹر حبیب الرحمن سالک خوبصورت عادتوں کے دلفریب انسان ہیں ، محترمہ رابعہ رحمٰن کو کون بھول سکتا ہے وہ دیر سے آئی اور بیساختگی سے متاعِ زیست کے اوراق پلٹے اور انتہائی چابکدستی سے اپنی گفتگو اختتام تک پہنچائی اور خوب داد وصول کی ، گفتگو طرازی میں جو رسم رابعہ رحمٰن نے ایجاد کی ہے وہ ابلاغی حوالے سے بڑی مؤثر ترین ہے ، نقیب محفل ہم سب کے محبوب علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کے داعی جنہوں نے ادب و شاعری کے پھول کی خوشبو کو زیادہ کیا ہے ان کی دعوت پر عبقری شخصیات سامعین کی صفوں میں اپنے آپ کو عزت و تکریم کی سزا وار قرار دیتی ہیں ، خالد شریف کی کامرانی کا راز طشت از بام ہو گیا ہے وہ ہر وقت اپنی والدہ ماجدہ کی دعاؤں کے حصار میں رہتے ہیں ، اس حوالے سے آپ ایک سعادت مند فرزند کے طور پر بھی اپنی پہنچان اور شناخت رکھتے ہیں ، نوین روما اور فرحت زاہد کی گفتگو کی جستجو میں سامعین کی آرزو جاگ اٹھی تھی وہ بولتی نہیں موتی رولتی ہیں ، متاعِ زیست کے مصنف کی خوش نصیی پر لاھور کے ہی نہیں پوری دنیا کے شاعر رشک کرتے ہیں ، محبت کے سارے جوھر حبیب الرحمن سالک کے دامن میں ہیں اور وہ بہترین اخلاق کے مالک ہیں ، میں ایک مرتبہ پھر خالد شریف کی طرف سے دعوت کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، اور دعا کرتا ہوں کہ جس طرح یہ تقریب ہوئی ہے اسی طرح مصنفین اھتمام کریں خواہ انہیں یو کے سے ندیم برلاس کو بلانا پڑ جائے ، ایک ہستی جس کو بھلایا نہیں جا سکتا ، وہ ہیں لاھور آبرو حکیم محمد سلیم اختر آسمان ادب کے اختر تاباں آپ نے خالد شریف اور متاعِ زیست کے مصنف ڈاکٹر حبیب الرحمن سالک کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور ڈاکٹر حبیب الرحمن سالک کو منظوم ہدیہ ء تبریک پیش کیا جس کا ایک شعر میرے حافظہ میں محفوظ ہے ،
ہر کوئی یہ کہتا ھے میری جان ھیں حبیب
شاعر ہیں یہ بڑے اور بڑے انسان ہیں حبیب