تکبیر تشریق تاریخی پس منظر اہمیت اور فضیلت
تکبیراتِ تشریق کو تکبیراتِ تشریق کیوں کہتے ہیں؟ حالانکہ ایامِ تشریق تو 10 ذی الحجہ کے بعد ہیں، اس مسئلے کی وضاحت کیجیے؟جواب: چوں کہ یہ تکبیرات “الل بر الل بر لا ل لا الل والل بر الل بر ولل الحمد” نو ذی الحجہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ کی شام تک پڑھی جاتی ہیں، ان ایام میں 9تاریخ کے سوا باقی سارے ایام ایامِ تشریق ہیں، اس لیے تغلیباً ان تکبیرات کو تکبیراتِ تشریق کہتے ہیں، اگرچہ ان تکبیرات کے حکم میں ایک دن ایامِ تشریق سے پہلے کا(یعنی نو ذی الحجہ ) بھی شامل ہے۔یہی (یعنی 9 ذوالحجہ کی فجر سے تکبیراتِ تشریق کا آغاز کرنا) احناف کامفتی بہ قول ہے۔نیز ایامِ تشریق کو تشریق کہنے کی مختلف توجیہات فقہائ نے لکھی ہیں، جن میں سے مشہور یہ ہے کہ یہ ”تشریق اللحم“ (گوشت خشک کرنے) سے ماخوذہے، ان دنوں میں جانور ذبح کرکے اس کا گوشت خشک کیا جاتاتھا، یا ”شروق الشمس“ سے ہے، یعنی نمازِ عید کے لیے سورج چڑھنے کا انتظار کرناوغیرہ۔ لیکن یادرہے کہ ان تکبیرات کے اوقات کی تعیین میں اصل ایامِ تشریق ہی نہیں، بلکہ وہ صریح احادیث ہیں جن میں رسول کریم سے یہ ثابت ہے کہ آپ یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر تک یہ تکبیرات ادافرماتے تھے۔اس لیے احناف کا مفتی بہ قول ان روایات کی
بناپریہی ہے کہ ان تکبیرات کا وقت یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز تک ہے۔’تشریق‘ شروق سے بنا ہے، جس کے معنی ’طلوعِ افتاب‘ کے اتے ہیں۔ تشریق سورج یا مشرق کی طرف ر±خ کرنے یا کسی چیز کو دھوپ میں سکھانے کو کہتے ہیں، چوں کہ ان دنوں میں لوگ قربانی کا گوشت سکھایا کرتے تھے، اس لیے ان دنوں کو ’ایامِ تشریق‘ کہا جانے لگا۔(النہایہ لابن الاثیر)ایامِ تشریق کا ثبوت قران سے: قران مجید
میں ایک مقام فرمایا گیا:اور اللہ کو گنتی کے دنوں میں (جب تم منیٰ میں مقیم ہوں) یاد کرتے رہو۔ (البقر) اور ایک مقام پر فرمایا گیا:اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمھارے پاس پیدل ائیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر ائیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو انکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں۔ چناں چہ (مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاو اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاو۔ (الحج)۔ ایامِ تشریق میں روزہ کا حکم؟چوں کہ یہ دن کھانے پینے اور خوشی منانے کے ہیں، اس لیے ان دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ابوالشعثائ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایامِ تشریق کے کسی درمیانی دن میں ہم لوگ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد کھانا ایا اور لوگ قریب قریب ہوگئے، لیکن ان کا ایک بیٹا ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا: اگے ہو کر کھانا کھاو! اس نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ کاارشاد ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔(مسند احمد) اورحضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ازاد کردہ غلام حضرت ابومرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے والد حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ انھوں نے عبداللہ کی طرف کھانا بڑھایا اور فرمایا: کھاو! عبداللہ نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ اس پر عمرو بن عاص نے کہا: کھاو! کیوں کہ یہ ایسے دن ہیں جن میں رسول نے ہمیں افطار کا حکم دیا اور روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔امام مالک نے کہا: ان دنوں سے مراد ایامِ تشریق ہیں۔(ابوداود)
تکبیرِ تشریق تاریخی پس منظر:
تکبیرِ تشریق کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جبریلجب حضرت اسماعیل کے بدلے میں جانور لے کر پہنچے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اِس حال میں دیکھا کہ وہ اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے بس تیار ہی ہیں تو ا±نھوں نے اس خوف سے کہ مجھے پہنچنے میں اگر ذرا سی دیر ہوئی تو ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرڈالیں گے، اس لیے انھوں نے حضرت ابراہیم کو متنبہ کرنے کے لیے دور سے ہی پکارا: اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب انھیں دیکھا تو فرمایا: لا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبر۔ اور جب اسماعیل کو فدیے کے جانور کا علم ہوا تو انھوں نے کہا: اللہ اکبر، وللہ الحمد۔(البحر الرائق) اس طرح تکبیرِ تشریق کے الفاظ یہ ہوئے: اَللہ± اَکبَر±، اَللہ± اَکبَر±، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ± وَاللہ± اَکبَر±، اَللہ± اَکبَر± وَلِلّٰہِ الحَمد±۔(کنز العمال)
تکبیرِ تشریق اور ایام حج:
تکبیرِ تشریق کی مشروعیت اس وقت کی تعظیم کے لیے ہے، جس میں مناسکِ حج ادا کیے جاتے ہیں۔اس لیے اس کی شروعات یومِ عرفہ سے ہوتی ہے کہ اس دن حاجی عرفات کے میدان میں قیام کرتے ہیں۔(بدائع الصنائع)حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عرفے کے دن صبح سے ایام تشریق کے اخری دن تک تکبیریں کہتے تھے۔(سنن کبری بیہقی)
تکبیر تشریق اور قضا نمازیں:
جن دنوں میں یہ تکبیر کہی جاتی ہے اگر ان دنوں کی کوئی نماز رہ گئی ہو، اب اگر اس کی قضا اسی سال کے ان ہی دنوں میں کی جائے گی تب تو یہ تکبیر کہی جائے گی، ورنہ نہیں۔ مثلاً نویں تاریخ کی نماز کی قضا اسی سال کی دسویں کو کی جائے تو تکبیر بھی نماز کے بعد کہی جائے اور اگر اس کی قضا ان دنوں کے گزرنے کے بعد یا اگلے سال کے ان ہی دنوں میں کی جائے، اسی طرح ان دنوں سے پہلے کی قضا نماز اگر ان دنوں میں پڑھے، تو یہ تکبیر نہ کہے۔ (الفضائل و الاحکام للشہور والایام)
تکبیرِ تشریق پڑھنے کا وقت؟
فرض نماز کے بعد فوراً تکبیرِ تشریق کہہ لینی چاہیے، لیکن اگر دعا مانگتے ہوئے کسی کو یاد ائےتو ا±سی وقت پڑھ لے، واجب ادا ہو جائے گا۔نماز کا سلام پھیرنے کے بعد جب تک قبلے سے سینہ نہ پھیرا ہو اور نہ کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے نماز کی بنا ممنوع ہوجاتی ہے، اس وقت تک یہ تکبیر کہی جا سکتی ہے۔ نماز کے سلام کے بعد اگر کسی نے قہقہہ لگایا یا عمداً حدث کیا، یا کلام کیا تواب یہ تکبیر نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اگر سلام کے بعد خود بخود حدث ہوگیا ہو تو یہ تکبیر کہہ لے، کیوں کہ ان کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔(الہندیہ)
نمازِ عید الاضحیٰ اور تکبیر تشریح۔
عیدالاضحی کی نماز کے بعد بالجہر تکبیرِ تشریق پڑھنا بالاتفاق ثابت اور جائز ہے، البتہ وجوب واستحباب میں اختلاف ہے، لیکن وجوب کا قول راجح ہے۔ (احسن الفتاویٰ) نمازِ عید کے بعد بھی تکبیرِ تشریق کا وجوب معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، اگرچہ فی نفسہ فرض نہیں،اسی پر مسلمانوں کا توارث ہے۔(البحر الرائق)
تکبیرِ تشریق کتنی مرتبہ پڑھی جا؟
تکبیرِ تشریق ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ کہنا واجب ہے،اور واجب سمجھے بغیر ایک سے زیادہ مرتبہ کہنے میں حرج نہیں ہے، بلکہ مزید ثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔ (الدر المختار مع الشامی)فقہی عبارات اور اَکابر کے فتاویٰ سے یہی مستفاد ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق کہنی چاہیےاور اس سے زائد کہنے میںکوئی حرج نہیں ہے،لیکن اس زیادتی کو سنت سمجھنامکروہ ہے۔ محض ذکر سمجھ کر پڑھنے میں مضایقہ نہیں۔ (فتاویٰ دارالعلوم)
دلی دعا ہے جو کچھ پڑھا اور سنا گیا اللہ تبارک و تعالی اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ صدقہ جاریہ کی نیت سے دوسرے احباب تک شیئر کیجئے۔