شہداءکے لہو ہمارے آنسو
عبد الواحد کاکڑایڈوکیٹ
آج ہم سانحہ 8 اگست 2016 کے شہداءکی چوتھی برسی منا رہے ہیں چار سال گزرنے کے باوجود ابھی کل کی طرح زخم تازہ ہیں 8 اگست 2016 کو سول ہسپتال کوئٹہ میں 57 وکلاءشہید ہوئے اور تقریباً 92 وکلاءزخمی ہوئے وکلاءکے علاوہ صحافی اور عام شہری بھی شہید اور زخمی ہوئے اس روز صدر کوئٹہ بار ایسوسی ایشن بلال انور کاسی ایڈووکیٹ پر فائرنگ اور ان کی شہادت کی اطلاع پاکر وکلاءبرادری اپنے رفیق کا آخری دیدار کرنے کے لیے سول ہسپتال کاسی شعبہ حادثات پہنچے وکلائ اپنے شہید وکیل اپنے رفیق کی میت کو کاندھا دینے اور آخری دیدار کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے اسی دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا دھماکے کے بعد قیامت کا منظر تھا ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی تھی لاش کے اوپر لاشیں، زخمی کے اوپر زخمی پڑے تھے اکثر لاشیں جلی ہوئی تھی سول ہسپتال کوئٹہ کے سینکڑوں ڈاکٹرز اور عملے میں صرف ایک ڈاکٹر، ڈاکٹر شہلا کاکڑ مرحومہ (لیڈی ڈاکٹر) زخمیوں کی مدد مرہم پٹی میں مصروف تھی سٹیچرکم ہونے کی وجہ سے دو دو زخمی کو ایک سٹیچر پر بیٹھایا ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے اپنے زخمی دوست عبد المالک شیرانی ایڈووکیٹ اور نوید قمبرانی ایڈووکیٹ کو پولیس کی گاڑی میں سی ایم ایچ کوئٹہ لے گئے بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے شہدائ کی تعداد بڑھ گئی افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ لوگ موت سے بچنے کے لیے ہسپتال جاتے ہیں اور ہمارے ساتھی ہسپتال میں تڑپتے تڑپتے شہید ہو گئے
8 اگست 2016 کو شاہد صوبے کا کوئی ضلع بچا ہو جس میں کوہٹہ سے تابوت نہ گیا ہو شیرانی ڑوب سے لے کر حب تک سوگ کا عالم تھا شدید زخمیوں کو کراچی منتقل کیا گیا ہمارے کچھ ساتھی /دوست آج تک مکمل صحت یاب نہیں ہوے ہیں جن میں جناب راجیش کوہلی ایڈووکیٹ ،ضمیر چھلکری ایڈووکیٹ اور ولی خان مندوخیل ایڈووکیٹ وغیرہ وغیرہ حکومت نے زخمیوں کا علاج ادھورا چھوڑ دیا بیواو¿ں /یتیموں کو آج تک نوکریاں نہیں ملی ہے میرے خیال میں کچھ حکومتی وعدے اعلانات کے حد تک تھی اس لیے عمل درآمد نہ ہو سکا چیف جسٹس آف پاکستان نے سانحہ 8 اگست 2016 کے واقعہ کا سوٹوں نوٹس لیتے ہوئے ایک رکنی جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا اور جناب جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کو کمیشن مقرر کر دیا جنہوں نے بلا ناغہ 56 دن کام کیا اور رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کیا آج تک اس رپورٹ پر عمل درآمد نہیں ہو سکا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں پینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جج کی اپنی رائے ہے جس پر ہمیں بہت دکھ ہوا اور غیور وکلاءنے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست داخل کر دیا جو آج تک Pending ہے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ آزاد اور انصاف پر مبنی سوچ رکھنے والے جج خود انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے سپریم کورٹ میں آج تک ان شہداءکی یاد میں باقاعدہ تعزیتی ریفرنس تک نہیں ہوا ہے غور طلب بات یہ ہے کہ بلوچستان میں پڑھے لکھے طبقے کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
کوئٹہ کے داخلی راستوں اور کوہٹہ شہر کے اندر پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات ہے ہر روڈ پر رکاوٹوں اور چیکنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اس کے باوجود ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے آج چوتھی برسی ہے دھماکے کی آواز اور ساتھیوں کی چیخیں کانوں میں گونج رہی ہے سارے شہداءمظلوم ہے میرے نظر میں سب سے زیادہ مظلوم شہید سید ضیاءالدین آغا ایڈووکیٹ شہید ہے جو والدین اور بہنوں کا اکلوتا بیٹا /بھائی تھا ۔اللہ تعالیٰ شہداءکے درجات بلند فرمائیں پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں اور زخمیوں کو صحت کاملہ عطا فرمائیں اللہ تعالیٰ وطن کو امن کا گہوارہ بناہیں آمین ثم آمین