ضلع ژوب کے تعلیمی مسائل
تحریر:سنگین ولی مندوخیل
ضلع ڑوب بلوچستان کی آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی ساڑھے چار لاکھ ہے اور اس کے متصل ضلع شیرانی ہے جو 2006 میں ضلع بنا تھا مگر ابھی تک بحال نہیں ہوا ہے۔ضلع شیرانی کی آبادی ڈھائی سے تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اور شیرانی قبائل کی اکثریت بھی ڑوب شہر میں رہائش پذیر ہیں۔اور ان سات لاکھ آبادی کے شہر میں صرف پانچ بوائز ہائی سکول اور دو گرلز ہائی سکول ہیں۔ جو کہ انتہائی کم ہے۔اوسطا ایک سکول میں داخل بچوں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہیں اور تعداد کی نسبت سکولوں میں کلاس رومز کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے تقریباً ہر سکول میں 12 سے 15 کے درمیان ہیں اور ہر کمرے میں 100 سے زائد بچے پڑھتے ہیں
ویسے تو دیہات اور دور دراز علاقوں میں اور بھی ہائی سکولز ہیں۔مگر وہ یا تو غیر فعال ہیں یا اساتذہ وہاں نہیں جاتے یا لوگ دیہات میں پڑھنے کو ترجیح نہیں دیتے ہیں۔ اب اس آبادی کا سارا بوجھ ان پانچ سکولوں پر ہیں۔
اور یہ سکولز1980 یا 90 کے دور میں بنے ہیں۔ پھر بعد میں اپگریڈ ہوکر ہائی ہوئے ہیں مگر ان سکولز میں یا تو نئی تعمیرات ہوئی ہی نہیں ہے یا بہت کم ہوئی ہیں۔اوسطا ہر سکول میں بچوں کی تعداد 1500 سے 2000 تک ہے اور کلاس رومز کی تعداد 12 سے 15 تک ہیں۔اس طرح ہر کلاس میں 100 سے 150 تک بچے پڑھتے ہیں۔
اب اتنی تعداد میں بچوں کو پڑھانا اور سمجھانا انتہائی مشکل کام ہے اور ایک استاد کی بس کی بات نہیں ہے اسی لیے بچے اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتے ہیں۔
ویسے تعلیمی اصولوں کے مطابق ایک کلاس میں زیادہ سے زیادہ 30 بچے ہونے چاہیے مگر ہمارے ہاں تو تین چار کلاسسز کے بچے ایک کلاس میں پڑھتے ہیں جو کہ تعلیمی اصولوں اور تقاضوں کے خلاف ہے۔
ہر سال دیہات سے سینکڑوں نئے بچے داخلہ لینے کیلئے شہر آتے ہیں اور شہر کے پرائمری سکولوں کے بچے بھی پروموٹ ہوکر ان ہائی سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔اب اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو کس طرح داخل کیا جائے۔اور ظاہر ہے بچوں کے پاس اور آپشنز بھی نہیں ہے۔دوسری طرف لوگوں کی مالی حالت بھی اتنی اچھی نہیں ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں اپنے بچے پڑھا سکیں۔
ڑوب شہر میں پچھلے تیس سالوں سے نئے سکولز نہیں بنے ہیں۔ دوسری طرف آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور دیہات سے بھی لوگ تیزی سے شہر منتقل ہورہے ہیں۔ اس طرح ان سکولوں پر بوجھ انتہائی بڑھ گیا
ہے۔ اور نتیجتاً سینکڑوں بچے داخلے سے محروم ہو کر منشیات میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر معاشرے پر بوجھ اور ناسور بن جاتے ہیں۔
دوسری طرف اتنی بڑی آبادی کے لیے صرف دو گرلز ہائی سکولز ہیں۔ جوکہ انتہائی کم ہے۔ گرلز سکول میں بھی بہت سارے مسائل ہیں۔ کلاس رومز کی کمی ہے۔ ٹیچرز نسبتاً بہت کم ہے۔ سکول کے لیے ایک ناکارہ بس ہے وہ بھی خراب ہے۔ شہر کے دور دراز علاقوں سے بچیاں پیدل سفر کرتی ہیں اور راستے میں مختلف مسائل کا سامنا کرتی ہیں
اسی طرح بوائز ڈگری کالج کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ کالج میں مختلف مضامین جیسے تاریخ، کمیونیکیشن سٹڈی، اور فیزیکل ایجوکیشن کے اساتذہ تعینات نہیں ہے۔
کالج کی لیبارٹری میں ضروری سامان کی شدید کمی ہے۔ کالج کی بس بھی خراب ہے۔ ہاسٹل تو بلکل غیر فعال ہیں۔
گرلز ڈگری کالج کی بھی یہی حالت ہے۔ فیمیل اساتذہ کی کمی ہے۔ اکثر مضامین کنٹریکٹ کی بنیاد پر میل اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ لیب میں سامان کی کمی ہے اور غیر فعال پڑا ہے۔ پہلے بی ایس کا پروگرام شروع ہوا تھا مگر اب کافی سارے مضامین میں بی ایس کا پروگرام بند ہوا ہے اس طرح لڑکیوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
دوسری طرف حکومتی نمائندے اس بنیادی اور انتہائی اہم مسلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اس اہم مسلے کے بارے میں غافل اور مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔ نہ کوئی احتجاج کرتے ہیں اور نہ اس مسلے کو اٹھا کر ضلعی اور صوبائی حکومت پر دباو¿ ڈالتے ہیں۔
حالانکہ یہ سیاسی جماعتوں کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو اجاگر کرے اور حل کرنے کی انتھک کوششیں کریں۔
شہریوں کے حکومت سے یہ مطالبات ہیں۔ ڑوب میں ایجوکیشن سٹی کے قیام کے لیے فوری طور پر ضروری اقدامات کیے جائیں۔ فوری طور پر شہر میں نئے بوائز اور گرلز سکول قایم کئے جائیں۔
گرلز سکول کے لیے 5 بسیں دی جائیں۔ گرلز سکول اور کالج کے لیے نئی آسامیاں منظور کئے جائیں۔ کالج اور سکولوں کے لیبارٹری کے لیے ضروری سامان فراہم کیا جائے۔