بلوچستان میں تعلیمی اصلاحات

0 52

_______
تحریر۔نیک محمد ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقل کے خلاف جنگ اور روشن مستقبل کیلئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے کا عزم
بلوچستان، جو کئی دہائیوں سے تعلیمی پسماندگی، سہولیات کی کمی اور ناقص انتظامی ڈھانچے کا شکار رہا ہے، اب مثبت تبدیلی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی بقاء اور خوشحالی کی بنیاد ہے اور خوش آئند امر یہ ہے کہ بلوچستان حکومت نے نوجوان نسل کی تعمیر و ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف قابلِ تحسین ہیں بلکہ ایک روشن مستقبل کی نوید بھی ہیں۔
صوبائی حکومت نے تعلیمی میدان میں جامع پالیسیوں کے ذریعے نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں باہنر، بااعتماد اور خود کفیل بنانے کی ٹھوس کوششیں جاری ہیں مثال کے طور پر فنی و پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز کا قیام، جدید نصاب کا نفاذ، اور بیرونِ ممالک میں روزگار کے مواقع کی فراہمی ان کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان تمام اقدامات کا ہدف صرف علم کی فراہمی نہیں بلکہ نوجوانوں کو معاشرتی اور معاشی ترقی کے قابل بنانا بھی ہے
حکومت کی ایک بڑی کامیابی امتحانی نظام میں شفافیت اور نقل کے خاتمے کے لیے کیے گئے مؤثر اقدامات ہیں۔ نقل ایک ایسا ناسور تھا جو بلوچستان کے تعلیمی ڈھانچے کو سالہا سال سے کھوکھلا کر رہا تھا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز خان بگٹی اور چیف سیکرٹری شکیل قادر خان و وزیر ایجوکیشن کی قیادت میں اب ان رویّوں کے خلاف سنجیدہ اصلاحات کی جا رہی ہیں تاکہ محنت، لگن اور قابلیت کو اصل معیار بنایا جا سکے اس سلسلے میں صوبے بھر میں نقل جیسے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کو یقینی بنایا جا رہا ہے صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں
نصیرآباد ڈویژن میں بھی کمشنر نصیرآباد ڈویژن معین الرحمٰن خان کی قیادت میں جو حکمتِ عملی اپنائی گئی، وہ ایک مثالی ماڈل بن چکی ہے۔ مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، جیسے کہ ڈپٹی کمشنر نصیرآباد منیر احمد خان کاکڑ، ڈپٹی کمشنر کچھی جہانزیب بلوچ، ڈپٹی کمشنر صحبت پور فریدہ ترین، ڈپٹی کمشنر جھل مگسی سید رحمت اللّہ شاہ ڈپٹی کمشنر استامحمد ارشد حسین جمالی اور ڈپٹی کمشنر جعفرآباد اظہر شہزاد نے نہ صرف خود امتحانی مراکز پر سرپرائز دورے شروع کیے اور نقل کی روک تھام کے لیے مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا بلکہ اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلداران پر بھی ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ بھی امتحانی عمل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہیں یہ بات تو طے ہے کہ ان اقدامات سے نقل کی شرح میں نمایاں کمی آئی اور طلبہ میں محنت کی اہمیت اُجاگر ہوئی مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ طلبہ کو نقل کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جو تخلیقی صلاحیت، تنقیدی سوچ اور خود انحصاری کو فروغ دے۔ ساتھ ہی امتحانی نظام کو اس طرح بہتر بنایا جائے کہ ذہانت، فہم اور محنت کرنے والے طلبہ کی بھرپور حوصلہ افزائی ہو اور نقل کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر یہی عزم، سنجیدگی اور اصلاحاتی اقدامات اسی تسلسل سے جاری رہے تو وہ دن دور نہیں جب بلوچستان نہ صرف تعلیمی بلکہ سماجی، معاشی اور سائنسی ترقی میں بھی دیگر صوبوں کے ہم پلہ بلکہ ان سے آگے نکل سکتا ھے یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ والدین، اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ سب کو مل کر اس جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا۔ یہی اشتراک بلوچستان کو تعلیمی روشنی کی جانب لے جا سکتا ہےیہ کہنا مناسب ہوگا کہ نصیرآباد ڈویژن میں کمشنر معین الرحمٰن خان کی قیادت میں جو حکمتِ عملی اپنائی گئی، وہ ایک مثالی ماڈل بن چکی ہے۔ اس ڈویژن کے تحت آنے والے اضلاع — نصیرآباد، کچھی، صحبت پور، جھل مگسی ،استامحمد اور جعفرآباد — میں ڈپٹی کمشنرز نے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان افسران نے نہ صرف امتحانی مراکز پر سرپرائز دورے کیے بلکہ ایک مربوط اور سخت نگرانی کا نظام بھی متعارف کروایا جس سے امتحانات کی شفافیت میں نمایاں بہتری آئی۔ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں نہایت جانفشانی اور ایمانداری سے کام لیتے ہوئے نقل کے خلاف جنگ میں مؤثر کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں طلبہ میں محنت کی اہمیت اُجاگر ہوئی اور تعلیمی ماحول میں بہتری دیکھنے کو ملی اگر یہی سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا تو یقینآ ہم نقل کے خلاف کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں راغب کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں انشاءاللہ

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.