عالمی طاقتیں کیوں خطے کی جنگ نہیں روکتے ؟
۔ ۔ آخرکار جنوبی ایشیا کے دوایٹمی ممالک بھارت اورپاکستان کے حالیہ کشیدگی نے دنیا بھر میں تشویش کی لہردوڑادی ہیے پہلی بار دنیا کی چھ طاقتورممالک نے خطے میں جاری صورتحال کوافسوسناک قراردیتے ہوئے دونوں ممالک سے کشیدگی کم کرنے کی ایپل کی چین نے دونوں سے تحمل برتنے کی۔ اپیل کی اوریہ بھی کہا کہ وہ خطے میں امن امان واستحکام کے لئے کوششییں جاری رکھے گا روس نے بھی دونوں ممالک سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی اورکہا کہ روس بحران کے حل کے لئے سفارتی کوششوں کی۔ حمایت کرے گا برطانوں حکومت اوراوراقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل نے دونوں سے تحمل برتنے اورمذاکرات کے زریعے مسلہ حل کرنے کی ایپل کی ہیے ایران نے اپنے آپ کو ثالث بننے کی پیش کش کی ہے سوال یہ پیداہوتا ہیے کہ ایک طرف دنیا کےاتنے طاقتورممالک دونوں ممالک سے تحمل کرنے اورکشیدگی کم کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں مگرتحمل کادرس صرف پاکستان کے لئے کیوں فلسطین کے لئے کیوں نہیں جہاں مسلمانوں کے خون خودامریکہ کے تعاون سے بہایاجارہاہیے یہ عمل وہاں کیوں نہیں دھرایاجاتادوسری جانب صبروتحمل رٹ لگانے والے یہ چھ طاقتورممالک اوراقوام متحدہ براہ راست انڈیااورپاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کوروکنے کے لئے کیوں عملی قدم نہیں اٹھاتے؟ کیا عالمی برادری کی یہ زمہ داری نہیں کہ بھارت اورپاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کاسنجیدگی سے نوٹس لے اقوام متحدہ اوردیگربین الاقوامی اداروں کواپناکرداراداکرتے ہوئے بھارت اورپاکستان پردباوں ڈالناچاہیے کہ وہ اپنی غیرزمہ دارانہ پالیسوں کوترک کریں اورخطے میں امن واستحکام کے لئے تعمیری روئیہ اختیارکریں کیونکہ اس خطے میں امن کی بحالی صرف جنوبی ایشیا کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے اہم ہیے یہ۔ اس لئے کہ کسی بھی ایٹمی تصادم کے اثرات سرحدوں سے ماوراہوں گے دنیا کویہ نہیں بھولناچاہیے کہ پاکستان اوربھارت کے۔ درمیان صرف دوممالک کاتنازعہ نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب سے زائدانسانوں کے مستقبل کاسوال ہیے خطے میں پائیدارامن کے لئے ضروری ہیے کہ تمام ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری کااحترام کریں اورطاقت کے استعمال سے گریزکریں اقوام متحدہ اوآئی سی یورپی یونین اوردیگرعالمی اداروں کو فوری مداخلت کرنی چاہئے تاکہ دونوں ممالک کومذاکرات کی میزپرلایاجاسکے عصرحاضرکی دنیا میں جب ترقی روابط تجارت تعلیم صحت اورسائنس کادوردورہ ہیے مگرافسوس کہ جنوبی ایشیا جیسے خطے میں ایک بارپھرجنگ کے۔ سائے منڈلارہیے ہیں اورلڑوبھڑوایک ایساالمیہ ہیے جودنیاکی آدھی آبادی والے خطے خوشحالی کی بجائے بربادی کے سائے ہمیشہ بھی منڈلاتے رہتے ہیں کاش کے دونوں ملک ایک دوسرے کی حقیقت تسلیم کریں کشمیرکوسارک کا ہیڈکوارٹربنادیں اوراسے ملٹری فری زون بناکرتمام برصغیرکے لئے اوپن کردیں اورتمام وسائل اپنی عوام کی۔ خوشحالی پرصرف کیاکریں تحمل اورصبرکرنے کی۔ اپیلیں کرنے والےان چھ طاقتورممالک اوراقوام متحدہ کو کس نے روکا ہیے ؟ کہ وہ خطے میں امن قائم کرنے کے لئے قدم نہیں اٹھائیں کیا اقوام متحدہ واقعی اپنے آپ کو دنیاکے۔ اقوام کا نمائندہ سمجھتے ہیں یاصرف طاقتوروں کا ایک نمائندہ بنا بیھٹاہیں؟ کیا عالمی عدالت انصاف واقعی انصاف دلانے کا ادارہ ہیے یاصرف ان مقدمات کوسنتی ہیے جومغرب کے مرضی کے مطابق ہوں؟ خطے میں امن وامان رکھنے کے بجائے پاکستان سے کشیدگی کم کرنے کے اپیل کرنے والاملک امریکہ بھارت کومحدودسرجیکل سٹرائیک پرتھپکی دینے کے صدرٹرمپ کے بیان کوجلتی پرتیل کاکام دینے کی علامت وشہ سمجھاجارہاہیے پاک بھارت کشیدگی ایک ایسے دورمیں جاری ہے کہ اس کشیدگی کوایک عرصے سے دونوں ممالک ایک ہتھیارکے طورپراستعمال کی جاتی رہی ہیے اوریہ کشیدگی جاری رہنے سے عوام کو مہنگائی خوف اورجھوٹی امیدوں کے سواکچھ نہیں دیتا اس کشیدگی کاہتھیار سیاست دانوں حکومتی اداروں اوراسٹبلیشمنٹ کووقتی فائدہ دیتاہیے یہ کشیدگی وہاں پیداہوتی ہیے جب کسی حکومت سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہورہی ہو جب بے روزگاری بڑھ رہی ہو جب کرپشن اسکینڈل منظرعام پرہو جب عدلیہ میڈیا اورعوامی رائے دبانے کارجحان غالب ہو توپھر دشمن کاشورمچانا سب سے آسان طریقہ بن جاتاہیے ایک دشمن دکھایاجاتاہیے تاکہ عوام سوال نہ اٹھائئں صرف جذبات سے سوچیں یہ رجحان صرف پاکستان میں نہیں بھارت میں بھی یہی کھیل کھیلاجاتاہیے جب بھارتی حکومت پرداخلی دباوں بڑھتا ہیے توسرجیکل اسٹرائیک لال قلعے پرجنگی نعروں اورپاکستان مخالف پروپیگنڈے کاشورمچ جاتا ہیے اس کامقصدبھی وہی ہوتا ہیے عوامی توجہ ہٹاو اورووٹ سمیٹوپاک بھارت کے درمیان حقیقی مسائل موجودہیں مگرموجودہ کشیدگیوں کابڑامنصوبہ بندی کے تحت پیداکیاجاتاہیے قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ صرف دشمنوں کونہیں بلکہ اپنی اندرونی کمزوریوں کوبھی پہچانتی ہیں پاک بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں جاری ہے کہ ہمارے سابقہ حکمرانوں نے دہشت گردی کے نام پر جنگ میں صف اول کے مجاہدین بننے کے شوق میں جوتمغے وڈالرحاصل کیئے اوراپنے پڑوسی خودمختارملک کے خلاف اپنی سرزمین جہاز ومیزائل کے پروازبھرنے کی اجازت دی پسنی شمسی وجیکب آبادکے ائیربیس امریکن کے حوالے کرکے ھم نے خودمختاری کی لاج وتقدس کے فرق کومیٹاکردنیا میں جارحیت ریاستی دہشت گردی کی لعنت کودہشت گردی کے خلاف جنگ کاغلاف پہناکراس انسانیت دشمن عمل کو ماورائے عالمی اصولوں کے لائسنس دے کرجائزقراردلائے آخر یہ کون ہیے کہ چھ طاقتورممالک اوراقوام متحدہ جیسے طاقتورادارے کی موجودگی میں دوارب آبادی رکھنے والے خطے کے لوگوں کو ایک جرمی واقعے کی بنیادپر جنگ کی آگ میں دھکیلتے ہیں اورجنت جیسے خطے کو جہنم بنانے کے درپے ہیں حالانکہ بھارت علاوالدین خلجی سے لے کر مغل کے آخری حکمران بہادرشاہ ظفرتک اکھنڈبھارت کاخواب تاریخ بارہا چکنارچورہواہیے پھرکیا وجہ ہے کہ خطے کی ایک اہم طاقتوربننے والا ملک بھارت اپنی آبادی کوسنبھالنے کے قابل نہیں ان کے اپنے ملک کے لوگ بغیرچھت کے سڑکوں پرسوتے ہیں لیکن بجائے یہ کہ اپنے ملک میں غربت اور جہالت کو ختم کریں یاان غربت اور جہالت کے خلاف جنگ شروع کریں مگروہ خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل دنیا چاہتے ہیں اس جنگ کرنے سے دونوں ممالک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گے بلکہ دونوں ممالک کے غریب عوام کونقصان ہی نقصان پہنچے گے ایک بین الاقوامی سائنسی جریدے سائنس ایڈوانسزمیں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک تازہ تحقیقی مکالمے میں اس بات کاجائزہ لیاگیا ہیے کہ اگرپاکستان اورانڈیا کے درمیان جوہری جنگ ہوتی ہے تواس کے نتیجے میں جانی اورموسمیاتی نقصان کی حدکیاہوگی مقالے میں کہا گیا ہیے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دوسرے ممالک کی نسبت انڈیا اورپاکستان کے حوالے سے خالص طورپرخدشات موجود ہیں کیونکہ ان دونوں ممالک میں جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہیے دونوں ممالک میں حال ہی میں پیش آئے کشیدگی کے تازہ واقعات سرحدی تنازعات پیش رفت کافقدان گنجان آبادی شہری علاقے اورجوہری ہتھیاروں میں تیزی سے توسیع ایٹمی جنگ کے خطرات مذیدبڑھا دیتی ہے تحقیق میں بنائے گئے اندازے کے مطابق انڈیااورپاکستان دونوں کے پاس اس وقت 140سے 150ایٹمی وارہیڈموجودہیں اور2025تک ان کی تعداد200سے 250تک ہوجائے گی دونوں کے پاس ایک دوسرے کی گنجان آباد شہروں کونشانہ بنانے کی صلاحیت موجودہیے دونوں ممالک اب تک چارروایتی جنگ لڑچکے ہیں 2025میں ہونے والی اس فرضی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کی تعداداوران کی طاقت کوسامنے رکھتے ہوئے بتایاگیا ہے کہ دونوں ممالک میں ہلاک ہونے والوں کی تعدادپانچ کروڑسے ساڑھے 12کروڑتک ہوگی اورہلاکتوں کی یہ تعدادجنگ دوم جتنی ہوگی انڈیامیں ہلاکتوں کی تعدادپاکستان کے مقابلے میں دوسے تین گنازائدہوگی اس جوہری ہتھیاروں سے لگنے والی آگ اوردنیا کے موسم کوٹھنڈاکردے گی جس کے نتجے میں کاشت کم ہوجائے گی اوروسیع پیمانے پرقحط پھلے گا ان حملوں کے نتیجے میں لگنےوالی جوہری آگ کے باعث ایک کروڑ76لاکھ ٹن سے لے کرتین کروڑ98لاکھ ٹن تک کاربن کااخراج ہوگا یہ دھواں پوری دنیا میں پھیل جائے گا زمین میں سورج کی روشنی 20سے 35فیصدتک کم ہوجائے گی جوعالمی درجہ حرارت کودوسے پانچ ڈگری سنٹی گریڈ تک کم کردے گی