سوانح امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ اور سرزمین بخارا
امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مسکن بخارا تھا ، جو دریائے جیحوں (آج کل آمو دریا کے نام سے معروف ہے اور یہ وسط ایشیا کا مشہور دریا ہے) کے قریب واقع وسط ایشیا کا ایک مردم خیز شہر ہے ۔ جہاں سے ایسے رجال کار پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں غیر معمولی خدمات سر انجام دیں ۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے صِحاح ستہ کے مصنفین پیدا ہوئے۔ یہ شہر صدیوں تک علم و عمل کے ساتھ ساتھ دینی اور عصری علوم ، خصوصاً سائنس کا بھی مرکز رہا ہے. دنیائے اسلام کے ممتاز سائنسدان ابنِ سینا (المتوفی 4 رمضان 428 ہجری) بھی اس مردم خیز مٹی میں پیدا ہوئے۔ انہی عظیم شخصیات کی بدولت صدیاں گزرنے کے باوجود آج ہمارے پاس آحادیث مبارکہ کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ، تاہم آخری صدیوں میں اس شہر کی مردم خیزی باقی نہ رہی جو اس کی ایک تاریخی خصوصیت اور شناخت تھی ۔
“نہیں اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب وگل ایران وہی تبریز ہے ساقی”
کیوں کہ جب اسکندر اکبر مقدونی نے فارس کو فتح کیا، تو بدقسمتی سے بخارا بھی اس کے زیر نگیں آگیا ۔
مگر 87 ہجری کو اسلامی تاریخ کے عظیم سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی قیادت میں اسلامی لشکر نے بخارا کو فتح کیا اور وہاں اسلام کا علم بلند ہوا ، اس کے بعد بخارا کئی صدیوں تک اسلامی دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔ خاص طور پر تشنگان علم کے پروانوں کی آماجگاہ بن چکا ۔ چہار دانگ عالم سے طالبان علوم نبوت بخارا کا رُخ کیا کرتے تھے۔ یہ شہر گویا کہ عالم اسلام کو علوم دینیہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔
لیکن جب چنگیز خان کی تاریخی سفاکی ،ظلم و جبر اور بربریت کا ناپاک دور شروع ہوا تو بخارا ان کی بربادیوں کا لقمہ بنا ، اور اس نے یہاں پر ایسے مظالم کیے جن کی مثال پوری دنیا کی تاریخ میں بہت کم ملے گی ۔ صرف چند محلات کو چھوڑ کر پوری کی پوری بستیوں کو نظر آتش کیا ۔ خاص طور پر 10 فروری 120ہجری کو بخارا کے محاصرے کے دوران کثیر تعداد میں معزز علماء کرام اور دینی شخصیات کو شہید کیا گیا ، اور اس وقت بخارا کے در و دیوار غم اور پریشانی کے آنسو بہا رہے تھے۔ ہر طرف غم و سوگ کی فضا قائم تھی۔ باشندگان بخارا انسانی بنیادی حقوق کی وصولیابی سے محروم تھے۔
تاہم چند ہی سال بعد وہی تاتاری جو اسلام اوراہل اسلام کے سخت مخالف تھے. ہر وقت اِن کی آواز ہمیشہ کے لیے دبانے کے درپے تھے ۔ پورے کے پور خاندان اسلام کے دامنِ رحمت میں آگئے ، اور کلمہ حق کی صداؤں کو پوری دنیا میں بلند کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے ۔ تو چنگیز خاندان کے مشہور اسلامی فاتح تیمور لنگ کی قیادت میں ایک بار پھر بخارا فتح ہوا ، اور اسلامی تہذیب و تمدن اور امن و امان کا مرکز بنا . جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے کیا خوب فرمایا:
“ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے”
امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت و ابتدائی زندگی :
آپ کی ولادت باسعادت 13 شوال 194 ہجری کو بعد نماز جمعہ ہوئی. بچپن ہی میں آپ کے والد ماجد اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ کا انتقال ہوا . لیکن آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی ایسی پرورش کی جن کی بدولت آپ محمد بن اسماعیل سے “امام بخاری” بن گئے ، اور آپ کی لکھی گئی کتاب ” صحیح البخاری ” قرآنِ کریم کے بعد پوری دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت والی کتاب بن چکی ہے .
آپ نے ایسے زمانے میں آنکھ کھولی جہاں ہر طرف اسلامی علوم و فنون کا چرچہ تھا ۔ آپ علیہ السلام کا عہد مبارک ابھی ابھی گزرا تھا. اسلام کا بول بالا تھا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت حضرات صحابہ کرام (رضی اللّٰہ علیہم اجمعین) اور اِن کے شاگردوں کے نقوش تازہ اور زندہ تھے ۔ خیرالقرون کا مبارک زمانہ تھا .
امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّہ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظے سے نوازا تھا ۔ درحقیقت آپ کی علمی رفعت میں سب سے اہم کردار آپ کے قوی حافظے کا تھا . آپ کے قوی حافظے اور ذہانت کا اندازہ آنے والی مثال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
فہم و علم کی مثالیں:
ایک مرتبہ بغداد تشریف لے گئے ، جہاں محدثین کی بڑی تعداد جمع ہوئی امتحان کی غرض سے حدیث مبارکہ کے متون اور اسانید میں خوب تبدیلی کی گئی اور سوالات شروع کر نے لگے ۔ امام صاحب رحمۃ اللّہ علیہ نے ہر بار فرمایا: “مجھے یہ حدیث معلوم نہیں ہے ”
محدثین تو آپ کی مہارت جان چکے تھے، لیکن عوام تشویش میں پڑ گئے کہ یہ کیسے امام ہیں ہر حدیث کے جواب میں کہتے ہیں کہ : ” مجھے نہیں معلوم ”
محدثین کرام اپنی دس حدیثیں سنا کر فارغ ہو گئے تو امام صاحب رحمۃ اللّہ علیہ ہر ایک کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمانے لگے کہ : “آپ نے جو حدیث سنائی تھی وہ دراصل یوں ہے.” الغرض آپ نے سب کی مقلوب حدیثیں بھی سنائیں اور ان کی تصحیح بھی فرمائی ، تو پوری مجلس میں خاموشی چھا گئی. آپ کے ہم درس حاشد بن اسماعیل رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: ” امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے ساتھ مشائخ بصرہ کے ہاں حدیث پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے ہم نے تقریبا وہاں سولہ ” 16 ” دن قیام کیا ، اور ہم مسلسل حدیث مبارکہ لکھتے تھے لیکن امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک حدیث تک نہیں لکھی ۔ ہم نے عرض کیا : کہ آپ کیوں نہیں لکھتےہو ؟ تو فرمانے لگے:کہ لاؤ تم نے جو کچھ لکھا ہے ہم نے تقریبا پندرہ ہزار حدیثیں لکھی تھیں ۔ وہ سب لے کر آئے تو امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے وہ تمام حدیثیں زبانی سنا کر فرمانے لگے: بتاؤ ! کیا میں نے وقت ضائع کیا؟
ابھی آپ کی عمر گیارہ سال تھی اس وقت کے محدث اعظم داخلی رحمۃ اللّہ علیہ کی سند حدیث کی غلطی کی اصلاح فرمائی۔ امام بیکندی رحمۃ اللّہ علیہ فرماتے ہیں: جب یہ بچہ میرے درس میں آتا ہے تو مجھے گھبراہٹ کی بنا پر حدیث مبارکہ بیان کرنے میں التباس ہونے لگتا ہے. محض اٹھارہ سال$کی عمر میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ کرام رضی اللّہ علیھم اجمعین اور تابعین کے اقوال وافعال پر مشتمل ایک شاندار کتاب ” قضایا الصحابہ و التابعین” لکھی.
عِلمی اَسفار اور حصولِ علم کی مشقتیں:
امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سفر کی لاٹھی ہاتھ میں لی اور علم حدیث کے حصول کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیا : شام، الجزائر ، حجاز ، بصرہ اور کوفہ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی تشریف لے گئے ، اور اپنے زمانے کے مشہور محدثین سے علم حدیث حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اجازت حدیث بھی حاصل کی ۔ آپ فرماتے ہیں : ” میں نے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے حدیثیں لکھی ہیں اور ہر حدیث کی سند بھی یاد ہے”
علم حدیث کی اس پر کٹھن راہ میں امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بہت ساری تکالیف برداشت کیں ، گھاس تک کھائی لیکن کسی کے سامنے آہ و فغاں نہیں کی ۔ خود فرماتے ہیں : حضرت آدم بن ابی ایاس رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں حدیث پڑھنے کے لیے گیا زاد راہ ختم ہوا ۔ گھاس تک کھانی کی نوبت پڑی ، لیکن کسی کو اطلاع دینا مناسب نہیں سمجھا۔ تین دن گزرنے کے بعد کسی اجنبی شخص نے اشرفیوں کی تھیلی دی اور چلا گیا۔
زندگی کے آخری ایام:
امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی پوری زندگی علم حدیث کے سیکھنے اور سکھانے میں بسر کی ، دن رات کا ایک ہی مشغلہ تھا لیکن اتنی مختصر سی زندگی میں احادیث مبارک کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ کیا ۔ خود فرماتے ہے :” مجھے کل تین لاکھ حدیثیں یاد ہیں جن میں ایک لاکھ صحیح حدیث اور دو لاکھ غیر صحیح حدیث ہیں ۔” عبدالواحد بن ادم رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں:” میں نے آپ علیہ السلام کو ایک جماعت کے ساتھ خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں میں نے کھڑے ہونے کی وجہ دریافت کی ، تو فرمانے لگے : میں بخاری کے استقبال کے لئے کھڑا ہوں ۔
بعد میں معلوم ہوا کہ جس وقت خواب دیکھا تھا اُسی وقت محسن الامہ ، جامع الحدیث امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا وصال ہوچکا تھا ۔
آپ کا انتقال “256” ہجری کو بعد نماز ظہر ہوا ۔ اس مجسمہ نور ، علم و عمل کا پیکر ، حکمت اور فلسفہ کا سیل رواں ، اخلاص اور تقوی کے سرچشمے کے جسم اطہر مقام خرنگ (سمرقند ) میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹی کے سُپرد کیا ۔ دفن کرنے کے بعد آپ کی قبر مبارک سے ایک خوشبو مہکنے لگی جو دیر تک محسوس کی جاتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔