“مجھے بھی کہنے دیجیے”

0 187

تحریر: محمد باسط علی باسل

آج ایسی تحریر لکھتے ہوئے صرف میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ پورے جسم میں کپکپی طاری ہے۔دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ صرف میری ہی نہیں بلکہ ہر زندہ ضمیر فرد کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔آج بھی اس بچے کی کرب میں ڈوبی ہوئی وہ صدا میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ جو ہاتھ پھیلائے،سر جھکائے،ایک استاد کے سامنے رو رو کر یہ کہہ رہا تھا کہ سر “مجھے بھی کہنے دیجیے”۔۔۔
اب یہاں میرے معزز قارئین کا مجھ سے یہ سوال پوچھنے کا مکمل حق بنتا ہے کہ میرے ان الفاظ کا مقصد کیا ہے ؟ تو آئیے آپ کی زحمت کو تمام کروں اور آپ کے سامنے اپنے ان الفاظ “مجھے بھی کہنے دیجیے” کا اصل معنی و مقصد واضح کر دوں۔یہ بچپن کا زمانہ تھا کہ جب میں چھٹی کلاس کا طالبعلم تھا ایک روز میری کلاس کے دو طالبعلموں کے درمیان کسی بات پہ لڑائی ہو گئ۔مسئلہ کلاس انچارج کے حضور میں لایا گیا۔آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ان دو بچوں میں سے ایک امیر باپ کا بیٹا تھا تو دوسرا دیہاڑی دار مزدور کا سہارا۔۔۔
جی تو مسئلہ استاد صاحب کے حضور میں لایا گیا۔ذرا منصف استاد صاحب کی منصفی دیکھیے کہ وہ بڑی توجہ سے امیر باپ کے بیٹے کی رودار سنتا رہا اور غریب بچے کو جھوٹا کہہ کر چپ کرا دیا جاتا۔غریب باپ کا بیٹا بار بار اپنے حق میں بولنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔مگر استاد نے یکطرفہ فیصلہ کر کے غریب باپ کے بیٹے کو سکول سے نکلوا دیا۔صد افسوس کہ غریب باپ کا بے بس بیٹا اپنی سسکیوں میں ڈوبی آواز میں “مجھے بھی کہنے دیجیے” کہتا ہوا سکول سے رخصت ہو گیا۔استاد چونکہ قوم کا معمار ہوتا ہے اب جہاں قوم کے معمار کی یہ حالت ہو تو وہاں قوم خاک ترقی کرے گی۔میرے معزر قارئین استاد کا پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے میں نے ہرگز ہر استاد پہ تنقید نہیں کی بلکہ میرے الفاظ صرف اور صرف اس برائے نام استاد کے لیے ہیں کہ جو کسی طرح ایک استاد تو بن جاتا ہے مگر وہ استاد کے فرائض سے ناآشنا ہوتا ہے۔بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ “چراغ تلے اندھیرا”۔
اب یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے۔جہاں پہ ہمارے منصف بزرگ تو بزرگی میں جواں سے نوجواں ہو چکے ہیں انہیں تو اپنی تھمتی سانسوں پہ کچھ خوف ہی نہیں۔وہ غریب کے سچ کا گلا گھونٹ کر امیر کے جھوٹ کو پروان چڑھا رہے ہیں۔بلکل مترادف حالت پاکستان کی عدلیہ کی ہے یہاں شریف اور غریب کو بے گناہ سولی پہ لٹکا دیا جاتا ہے جبکہ کمینے اور امیر کو باعزت بری کر کے دوبارہ جرائم کرنے کی ہمت دی جاتی ہے۔یہاں پہ سرائیکی شاعری کی میری ایک نحیف کاوش ملاحظہ فرمائیے_

شریف شودے دی رات کینی
کمینہ تاں اج نواب بنڑ گئے

شریف دے وکھرے ناں سڈیندن
کمینے دا خاں خطاب بنڑ گئے

اے چور،ڈاکو،لٹیرے لٹ کے
عجب ھے انصاف بچ کیوں ویندن

ھے ھیف ساڈی ایں عدلیہ تے
شریف ایندا کباب بنڑ گئے

کمینہ بیٹھک دی آبرو ھے
شریف وس تے عذاب بنڑ گئے

شریف کوں درد ڈینوڑاں تاں
کمینے وس تے ثواب بنڑ گئے

ازل توں عریاں تھیا شریفء
کمینے تے کئی حجاب بنڑ گئے

بیا کیا لکھیسیں جنابِ باسل
کمینے کوں ڈے جواب ھکو

نئی دیر تیڈے تے وس اے پوسی
گناہیں دا سر تے سحاب بنڑ گئے
__

حقیت ہے کہ ظلم کے خلاف جتنا دیر سے اٹھو گے اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔اس لیے ظلم پہ خاموشی اختیار کرنے والے مردہ ضمیر لوگ ہوتے ہیں۔اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جینے کا حق حاصل ہے۔میرے ذیقدر قارئین ہم سب کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ زندگی نے آخر ایک دن ختم ہونا ہی ہے تو کیوں نہ حق سچ پہ ختم ہو۔پروردگار عالم سے دعا ہے کہ اس غریب و بے کس طالبعلم کی طرح ملک پاکستان کا کوئی بھی فرد اس طرح مجبور و بے کس نہ ہو کہ اسے اپنے حق میں بولنے کے لیے کسی ظالم و جابر کے سامنے یہ کہنا پڑے۔۔۔
“مجھے بھی کہنے دیجیے”

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.