ابھی گواڑخ کھلنے کا موسم ہے
تین سرنگوں کی ذرخیز دھرتی جسے مستونگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، اِس کا گرد و نواحی علاقہ گونڈین سے کمبیلا ، دشتِ جلب سے گندان اور زڑخو کا نیلگوں پانی سے لیکر درہ بولان کی گھاٹیوں ، چوٹیوں پر گواڑخ کھلنے کا موسم ہو تو ہلکے پیلے اور گہرے سرخ رنگوں کی بہار رقص کرنے لگتی ہے۔ بادو باراں میں سفید بجری کی چمکتی ندیّوں کا پانی گنگنانے لگتاہے۔اور گھنگھور گھٹائیں انگڑائی لگتی ہیں۔گواڑخ کے نیلے ، پیلے اور لال پھول اِس دھرتی کی تہذیبی ، تمدنی ، ثقافتی ، ادبی ، علمی ، تاریخی اور سماجی روایات کی غمازی کرتے ہیں یہاں کی مٹّی سے ایک طرف زعفران جیسی قیمتی فصل کی روئیدگی ہوتی ہے تو دوسری جانب صلاح الدین نامی شخصیات جنم لیتی ہیں جو عصرِ حاضر کی ڈاکٹر ایم صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ کے نام سے شہرتوں کے بام پر عروج پاتی ہیں۔مجھے جب نوجوان شاعر و ادیب ظفر ذیشان سرپرہ نے ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کے فن و شخصیت پر خامہ فرسائی اور رشحاتِ قلم کی دعوت دی تو میں اسّی کی دہائی میں پہنچ گیا۔ایم ، اے جناح روڈ کی دو منزلہ بلڈنگ کے بلائی پوشن میں پاکستان نشنل سینٹر کا خوبصورت اڈیٹوریم میں تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ میں صابر بولانوی کے ہمراہ فتح مارکیٹ کے زینے عبور کرتا ہوا نسیم صاحب جو نیشنل سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں جہاں ایک وجاہت کی انبگیں دھنک لیے خوش شکل و شکل اطوار نوجوان پہلے سے محوئے گفتگو تھا۔علیک سلیک کے بعد نسیم صاحب نے موصوف سے ہمارا تعارف کرانے کرایا اور ہمیں بتایا کہ یہ ہیں ایڈووکیٹ صلاح الدین مینگل جو اج کی تقریب کی صدارت کر رہے ہیں۔پھر ایک لامتناہی سلسلہ رہا جو ہماری سرکاری ملازمت اور تقرریوں و تبادلوں کے باعث منقطع ہو گیا تاہم علم و ادب اور قلم کتاب کے حوالے سے غائبانہ تعلق برقرار رہا۔جو اج بھی قائم و دائم ہے ڈاکٹر صلاح الدین میں گل کی شخصیت میں وہ مقناطیسیتی جوہر ہے جو ایک بار ان سے جڑ جائے پھر جدا نہیں ہو پاتا ،ڈاکٹر صاحب کی دوستی کی مالاو¿ں کے موتی بڑے نایاب ، گرانقدر ، بیش بہا اور قیمتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صلاح الدین دوستوں کے دوست اور یاروں کے مخلص بے لوث ، غمگسار ، مونس ، ہمدرد ، جاں نثار یار ہیں۔وہ ادب دوست ہیں ادب پرور ہیں اور علم شناس ہیں اور ہم جیسوں کوان پر فخر ہے اور گھمنڈ و ناز کا اثر اج کا نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ، گہرا ہوتا جارہا ہے۔اِس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صلاح الدین مینگل کی پوری کی پوری شخصیت جادوئی ہےاور ان کی ذات کا جادو اِس قدر دیر پاءہے یہ ہمہ وقت اثر پذیر ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔تین سرنگوں والے شہرِ بے مثال مستونگ ، 26 جون 1954ئ حاجی محمد شریف بارانزئی کے گھر ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ جسے ابتدائی طور پر دینی تعلیم گھر پر دی جاتی ہے۔اسلامی علوم سے روشناس کرایا جاتا ہے اور پھر اسے مستونگ کے ایک معروف میں داخلہ مل جاتا ہے داخل جہاں سے وہ 1968ئ میں سیکنڈری اسکول سرٹیفیکٹ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیتا ہے۔ سن ستر کی دہائی پورے ملک اور بلخصوص بلوچستان کیلیے بڑا بر اشوب کا دور تھا۔نیپ کی حکومت میں سردار عطااللہ مینگل وزیرِ اعلیٰ بلوچستان تھے اور مذاحمتی تحریک کا سامنا تھا۔ایسے میں صوبائی سطح پر بلوچ اور پشتون اپنی بقائ کی جنگ لڑ رہے تھے ایسے میں گواڑخ کھلنے کی رت میں ایک مستونگی نوجوان جسے اپنی زبان ، ثقافت ، تہذیب اور رسم و رواج کے جنوبی عشق ہے براہوئی اسٹوڈنس فیڈریشن کا اعلان کرتا ہے تاکہ ،1 * ملک کے تمام براہوئی بولنے والے لوگوں اور بلخصوص طلبائ و طالبات کو اپنی زبان و کلچر۔کی بقائ اور اپنے حقوق کے حصول کیلیے ایک مرکز پر متحد کیا جائے۔2 * اپنی لسانی و۔ادبی سرگرمیون کو پروان چڑھایا جائے۔3 * ریڈیو پاکستان کوئٹہ سے براہوئی پروگرام کا دورانیہ بڑھایا جائے۔4 * براہوئی زبان میں بھی “اولس” شائع کیا جائے۔5 * براہوئی اکیڈمی کی گرانٹ کو بڑھایا جائے۔6 * میڈیا پر براہوئی زبان میں قومی خبریں نشر و کاسٹ کی جائیں۔ 7 * براہوئی طلبائ میں اتحاد و اتفاق کی فضائ پیدا کی جائے۔ 8 * براہوئی طلبائ کے تعلیمی مسائل حل کئیے جائیں۔9 * ریڈیو پاکستان خضدار۔قائم کیا جائے۔10 * براہوئی علمی ادبی اور تاریخی کتب شائع کی جائیں۔یہ ایک جذبے ، جنون اور عزم کی داستان رقم کرنے نہیں نکلا تھا بلکہ وہ براہوئی تحریک تھی جو سیلاب کی جوشیلی لہریں بن کر پورے بلوچستان میں یوں پہیل گئیں کہ حکومتی ایوانوں میں بھونچال ا گیا۔پھر یوں ہوا کہ صوبائی وزیرِ تعلیم میر گل خان نصیر یکم ستمبر 1972ئ کو تعمیرِ نو اسکول کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، صوبائی حکومت پرائمری تعلیم بلوچی اور پشتو زبان میں دے گی ، مستونگی نوجوان کھڑا ہو جاتا ہے ، سر براہوئی ؟جواب ملتا ہے اسے دریائے کابل میں
پھینک دیا نوجوان تڑپ کر رہ جاتا اپنی زبان سے عشق اسے بغاوت پر اکساتا اس کی تحریک زور پکڑتی ہے ، احتجاج ، جلسے ، جلوس اور نعرہ بازی کی پاداش میں سن 1972ئ کا سال اس کیلیے ازمائش کا پہاڑ بن جاتا ہے ، اسے خضدار جیل میں قید و پابند اور ظلم و جبّر کی صعوبتیں جھیلنی پڑتی
وہ چٹان بن جاتا اِس چٹان کا نام میر صلاح الدیں مینگل ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کی پور زندگی جہدِ مسلسل کے محور پر گھومتی دکھائی دیتی 1974 ء میں۔ڈگری کالج سریاب سے بی ، اے 1975ئ میں براہوئی فاضل کا امتحان پاس کیا اور معاشیات۔میں ماسٹر 1977ئ میں ایل ، ایل ، بی کیا1978 ئ میں وکالت شروع کی 1981 ئ میں ہائی کورٹ بلوحستان میں پریکٹس کا۔اغاز کیا 1989ئ ایل ، ایل ، ایم کراچی سے پاس 1991ئ میں اسسٹینٹ۔ایڈووکیٹ جنرل ہائی کورٹ۔بلوچستان بنے 1994ئ میں سپریم کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے کام 1995ءمیں لاءکالج کے اعزازی پرنسپل ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز بھی ملا کہ اپ مسلسل نو سال ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ صلاح الدین مینگل کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جو انھیں دوسروں سے معتبر بناتے ہیں۔ وہ وکالت کے ساتھ ساتھ اچھے صحافی بھی رہے۔ اور اپنا صحافتی کمال جوہر کا مظاہرہ روزنامہ زمانہ کوئٹہ ، ایلم ، بلوچستان ٹائمز اور دیگر میگزین میں مثالی خدمات سر انجام دے کر اپ نے پاکستان ٹیلی وڑن پر ڈرامہ رائٹر ، پروڈیوسر اور کمپیئر کے طور پر بہی کام کیا اور عزت کمائی براہوئی ادب ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کا نام لئیے بغیر مکمل نہیں ہو براہوئی لسان و ادب کی خدمات پر کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نوازہ گیا حکومتِ بلوچستان نے حسنِ کارکردگی سے سر فراز کیا اپ کا تصنیف و تالیف کا کام۔بھی ادبی معرکے سے کم نہیں ڈاکٹر صاحب کم و بیش 18 کتابوں کے مصنف ہیں اور ادبی
تخلیق کا سفر ہنوز جاری ہے اللہ زورِ قلم اور زیادہ دشتِ گونڈین ، دشتِ کمبیلا ، دشتِ جلب میں ابھی اور گواڑخ کھلنے ابھی بولان کے دریاو¿ں میں چشموں کا ابِ رواں بہاو¿ انا ابھی پیر غائب کے جھرنوں نے گنگنانا ابھی مستونگ کی سفید مٹی کے زعفرانی پھولوں کی کونپلوں کو پھوٹنا ہے ۔صلاح الدین ایوبی کی روح کو ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کے تن بدن میں بیدار ہونا ہے۔ڈاکٹر صاحب !میرے سنگ او¿۔۔۔۔۔۔۔کولپور چلتے ہیں ابھی گواڑخ کھلنے کا موسم ہے۔