علامہ اقبال کی شاعری مشکل کیوں ہے
حمیرا علیم
نومبر شاعر پاکستان علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ اور کسی زمانے میں اس دن پاکستان میں چھٹی بھی ہوتی تھی لیکن اب یہ چھٹی ختم کر دی گئی ہے اگرچہ ہمارے ”چاچو” وزیر اعظم اس بار عام تعطیل کا اعلان کر چکے ہیں۔
ہم پہلی کلاس سے اپنے قومی ہیروز کے بارے میں پڑھتے آ رہے ہیں خصوصاً قائد اعظم، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان۔ اردو کی کتاب میں ان کی پہلی نظم جو میں نے پڑھی وہ “ہمدردی” تھی جس میں ایک جگنو اور بلبل کا مکالمہ تھا۔پھر بچے کی دعا، مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری، پرندے کی فریاد، بچہ اور جگنو پڑھیں۔ یہ تمام نظمیں ان کے پہلے مجموعہ کلام بانگِ درا میں شامل ہیں۔ ایف اے تک اردو پڑھی اور علامہ کو بھی پڑھا۔ مجھے یاد ہے اسٹوڈنٹس ہمیشہ یہ کہتی نظر آتی تھیں کہ علامہ کی شاعری بے حد مشکل ہے لیکن مجھے اس کو پڑھنے اور سمجھنے میں کبھی کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
کئی سال بعد جب قرآن و حدیث کا کورس کیا تو جانا کہ علامہ نے تو قرآن کی آیات پر ہی شاعری کی تھی۔ مسلمان کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں اور اسے کیسا ہونا چاہیے، ان کی تاریخ اور کارنامے، دوسروں کے لیے ہمدردی، حسن ظن اور تقوی یہی علامہ کی شاعری کا موضوع تھے۔ اور ہم لوگ قرآن حدیث سے دور ہیں اس لیے ہمیں ان کی شاعری مشکل لگتی ہے۔
ان کی شخصیت، زندگی، شاعری اور پاکستان کے لیے جدوجہد کے حوالے سے تو ہر کوئی لکھتا ہے اور لکھتا رہے گا۔ میں اس موضوع پر قلم اٹھانے کے لائق نہیں اس لیے میری تحریر ان سب سے ذرا ہٹ کر ہے۔
ہر ملک اور قوم اپنے نیشنل ہیروز کو قومی سرمایہ سمجھتی ہے۔ اور ان کے جانے کے بعد ان سے وابستہ چیزوں اور جگہوں کو محفوظ کر لیتی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ان سے روشناس کروایا جا سکے۔ مگر ہم پاکستانی باقی معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی خاصے بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے نیشنل ہیروز کی نہ ان کی زندگی میں قدر کی نہ ان کے جانے کے بعد۔
قائداعظم بیمار ہوئے تو کئی گھنٹے تک ایمبولینس فراہم نہ کی جا سکی۔ لیاقت علی خان کو سرعام قتل کر دیا گیا۔قائداعظم کی ایک نشانی زیارت ریذیڈنسی تھی جو دہشت گردی کی نذر ہو گئی۔ علامہ اقبال کا گھر جو کہ سیالکوٹ میں واقع ہے اس کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ مغل ادوار کے قلعے ہوں یا نیشنل ہیروز سے وابستہ مقامات سب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہم خود تو اپنے ورثے کی حفاظت کے قابل ہیں نہیں اگر کوئی اور بھی ہمارے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کرے تو ہماری زبان زہر اگلنے لگتی ہے۔
جب ایک مغربی ملک نے علامہ کے نام سے ایک شاہراہ منسوب کی تو ایک صحافی نے یوں اپنے زریں خیالات کا اظہار فرمایا: “علامہ اقبال موجودہ دور میں غیرمتعلق ہو گئے ہیں۔” اور اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے اقبال کے دو مصرعے پڑھ کر اپنی بات درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
“دشت تو دشت، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
اور
تیغوں کے سائے میں ہم پَل کر جواں ہوئے ہیں۔”
جس شاعر کو دُنیا عظیم سمجھتی ہو، مختلف ممالک میں جس کے نام کی شاہراہیں اور یونیورسٹی چیئرز قائم ہوں، جس کی کتب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہوں، جس کی شخصیت اور شاعری پر پی ایچ ڈی کی جا رہی ہو اسے ہمارے نرگسیت کے شکار کچھ لوگ اگر موجودہ دور میں غیرمتعلق ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اُن کی سوچ اور دانشوری کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
ایک ایسا شاعر جس کی عظمت کا مغرب بھی قائل ہے حتی کہ شیکسپیئر جیسے مصنف کی رہائش گاہ سٹریڈفورڈاپون ایون میں اقبال کی یادگاری تختی لگی ہوئی ہے۔ شیکسپیئر پر اقبال کی نظم کے اردو، فارسی اور انگریزی نسخوں کی خطاطی پر مبنی یہ تختی ان نام نہاد دانشوروں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اپنے ہیروز کی قدروقیمت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنے ہیروز کی عزت نہیں کر سکتے کم از کم ان کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرنے سے تو اعراض کرنا چاہیے۔
حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں یہ خود آگاہی، یہ خوش گوئی، یہ ذوق معرفت! یہ طریق دوستی، خود داری، یا تمکنت! اس کی شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے باخدا تھے، اہل دل تھے، صاحب اسرار تھے آپ کے ایک گرامی قدر دوست حضرت علامہ گرامی نے کہا تھا: در دیدۂ حق نگراں حضرت وجہ سے ’’انسائیکلو پیڈیا برطانیکا‘‘ میں آپ کو ’’شاعر پین اسلامزم‘‘ کہا گیا ہے۔ آپ کے استاد پروفیسر آرنلڈ نے آپ کی شاعری کو ’’انکشاف حقیقت‘‘ کہا ہے اور بعض دوسرے مغربی مفکرین نے آپ کو گوئٹے، نطشے اور شیکسپیئر سے ملایا ہے۔
ایک امریکی نقاد نے لکھا ہے کہ گزشتہ آٹھ سو سال سے اقبال کے پائے کا شاعر دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ بعض اطالوی یونیورسٹیوں میں پروفیسر نکلسن کا ترجمہ ’’اسرار خودی‘‘ نصاب میں شامل ہے اور کئی نظمیں ترکی زبان میں منتقل کی گئی ہیں تاکہ انہیں ترک طلبہ کو پڑھایا جا سکے۔ غرض کلام اقبال صرف برصغیر پاک و ہند کے لیے سرمایہ افتخار نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔