پشاور ہائیکورٹ: پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس مل گیا

1 131

 

پشاور ہائیکورٹ: پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس مل گیا

 

پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشدعلی نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس سید ارشد علی نے پوچھا الیکشن کمیشن نے کون سے سیکشن کے تحت اس پارٹی کے خلاف کارروائی کی، وکیل شکایت کنندہ نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 215 کے تحت کارروائی کی ہے، جس پر عدالت نے کہا الیکشن کا رزلٹ تو 7 دن کے اندر جمع کیا گیا ہے،

 

وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا الیکشن کمیشن نے دیکھنا تھا کہ سیکشن 208 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے، سب نے کہا کہ جو بانی پی ٹی آئی کہیں گے وہی ہوگا۔جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے یہاں تو سب جماعتیں ایک ہی خاندان کے لوگ چلاتے آرہے ہیں، شاید یہ واحد جماعت ہے جو ورکرز کو آگے آنے دے رہی ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفرنے شکایت کندہ کے وکلائ کے اعتراضات پر جواب دیتے ہوئے کہا فریقین کے وکلائ نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوالات اٹھائے، دائر اختیارپر اصول کیا ہے وہ بتانا چاہتا ہوں، آرٹیکل 199 ہائیکورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے۔

 

پاکستانیوں کیلئے بڑی خبر، دنیا کا پہلا وائرلیس ٹرانسپیرنٹ ٹی وی متعارف

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر مہمند نے اپنے دلائل میں کہا کہ کاغذ لہرا کر کہا گیا کہ یہ پارٹی چیئرمین ہے اوریہ نتائج ہیں، یہ غیرقانونی انٹرا پارٹی انتخابات پر کہتے ہیں کہ ہمیں انتخابی نشان دیں جبکہ وکیل شکایت کنندہ کا کہنا تھا سب نے کہا جو بانی پی ٹی آئی کہیں گے وہی ہوگا۔

جسٹس ارشد علی نے کہا الیکشن ایکٹ کی سیکشن 208 کےتحت انٹراپارٹی انتخابات ہوتے ہیں، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 کی سب سیکشن 2015 کےتحت کیسے پارٹی نشان واپس لیا گیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 209 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات فارم 65 کو صرف دیکھنا نہیں مطمئن ہونا الیکشن کمیشن کا کام ہے، پی ٹی آئی والے الیکشن کمیشن کو ایک ریکارڈ کیپر سمجھتے ہیں، الیکشن کمیشن ایک ریگولیٹری باڈی ہے جو انٹرا پارٹی انتخابات کو دیکھ سکتی ہے۔

 

سوزوکی، ٹویوٹا اور کیِا موٹرز کی زبردست آفرز

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا سیکشن 209 میں ہے کہ پارٹی چیئرمین کا فارم 65 اقرار نامہ ہےکہ پارٹی انتخابات پارٹی کے آئین کے تحت ہوئے، انتخابی نشان صرف انتخابات کے وقت پارٹی کے پاس ہوتا ہے، انتخابات کے بعد چار سال یہ نشان الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے، انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد پارٹی انتخابی نشان مانگتی ہے، الیکشن شیڈول جاری ہوتا ہے تو پھر انتخابی نشان الاٹ ہوتے ہیں، کل اورپرسوں انتخابی نشانات الاٹ کیے جائیں گے، الیکشن ہونے کے بعد سیاسی جماعت کا نشان سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہمارے انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوئے

دوران میچ بھارتی کرکٹر ہارٹ اٹیک کے باعث چل بسا

جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اب الیکشن ہو رہے ہیں تو پورے ملک کے لیے ہیں، ہماری پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی اس صوبے سے ہیں۔جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا آپ کی پارٹی کے جنرل سیکرٹری کون ہیں ؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ عمر ایوب جنرل سیکرٹری ہیں جن کا تعلق اس صوبے سے ہے، ماڈل ایان علی کے خلاف کیس راولپنڈی میں تھا، اسے کراچی ائیرپورٹ پرگرفتار کیا گیا تھا، اس وقت بھی ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا تھا۔پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ ایان علی کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سندھ ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے، شکایت کنندہ کی شکایات بد نیتی پر مبنی ہیں، شکایت کنندہ دوبارہ انتخابات نہیں پارٹی ختم کرنا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد یا پشاور ہائیکورٹ کہیں بھی چینلج ہو سکتا ہے، اس صوبے میں 2 بار پی ٹی آئی نے حکومت بھی کی ہے، یہ کہنا کہ پارٹی آفس اسلام آباد میں ہے کیس یہاں نہیں ہو سکتا غیر مناسب ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست گزاروں، الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی وکلائ کے دلائل سننے کے بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کو انتخابی نشان کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور انتخابی نشان کی حقدار ہے۔

 

تحریک انصاف کے انتخابی نشان کا معاملہ، کب کیا ہوا؟
یاد رہے کہ 22 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان بلے سے محروم کر دیا تھا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کےفیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔جسٹس کامران حیات نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر 26 دسمبرکو حکم امتناع جاری کیا تھا، پشاور ہائیکورٹ نے حکم امتناع میں پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کردیا تھا اور چھٹیوں کے بعد 9 جنوری کو ڈویڑن بینچ کو کیس سننے کا حکم دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے 30 دسمبر کو حکم امتناع کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکی تھی، 3 جنوری کو جسٹس اعجاز خان پر مشتمل سنگل بینج نے حکم امتناع کو ختم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا تھا جس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے دوبارہ اپیل دائر کی تھی۔

You might also like
1 Comment
  1. […] پشاور ہائیکورٹ: پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس مل گیا […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.