سماج کو اخوت کی ضرورت ہے
جہاں تک سماجی فلاحی ٹرسٹ تنظیموں کے پس منظر کاتعلق ہے ، جو صدیوں پرانا ہے دنیا کے مختلف حصوں میں عوام کی جانب سے عطیا کردہ چندوں، عطیوں کو فلاحی تنظیموں کے ذریعے فلاحی کام سر انجام دیے جن میں یتیم خانے، مدارس ، اور انتظام و انصرام وغیرہ شامل ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سماجی تنظیمیں رجسٹریشن کے بعد کام کرتی ہیں ۔اور اس وقت ملک میں کہی فلاحی ادارے کام کررہے ہیں ان میں سے کہی تنظیموں کی نامیں نمایاں ہیں جن میں سے اخوت کا ادارہ قابلِ ذکر ہے لیکن باز ایسے ادارے بھی ہیں جو سال میں لاکھوں روپے مالیت جمع تو کرتے ہیں پر وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو ایک فلاحی ادارے کو کرنا چاہئے میں ان اداروں کے نام لینا مناسب نہیں سمجھتا جن کا سماج میں کوئی کردار دیکھائی نہیں دیتا ،بہرحال اس ادارے کی ذکر ضرور کرنا چاہونگا جس کی مثبت اور مثالی کردار نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کر دیا جی ہاں وہ ادارہ “اخوت” ہے جس کی بنیاد جناب امجد ثاقب صاحب نے کچھ یوں رکھا وہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔
جب میں اپنے دفتر میں بیٹھا تو اچانک ایک عورت تشریف لائ اس کی انکھوں میں آنسوؤں تھے ہلکا سا دکھ اور پریشانی کے ساتھ وہ میرے سامنے پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی کہ مجھےآپ کی مدد کی ضرورت ہے اور پھر اس نے کہا چند دن قبل میرے خاوند کا انتقال ہوا میرے چار بچے ہیں میں اپنے بچوں کو مجرم بنتا نہیں دیکھ سکتی مجھے اپنے بچوں کیلے بہترین زندگی چائیے لیکن میں یہ بہترین زندگی مخلوق خدا کے آگے ہاتھ اٹھا کر خیرات میں مانگنا نہیں چاہتی میں عزت غیرت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہوں اور وہ عورت مزید کہنے لگی کہ میں اپنے عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی اپنے عزت نفس یر بوجھ بننا چاہتی ہوں میں نہیں چاہتی کہ میری بقیہ زندگی شرمساری پشیمانی میں گزرے کیونکہ میرے خاوند نے اپنے آخری ایامِ میں مجھے نصیحت کی کہ زندگی عزت و غیرت کے ساتھ گزاریں اور اس دنیا میں آبرو کے ساتھ زندہ رہیں میں اس عورت کی خود اعتماد پر مبنی باتیں سن کر حیرت میں مبتلا ہوا اور میں نے پوچھا کہ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں ؟
اس عورت نے جواب دیا کہ مجھے بھیک نہیں چائیے کیونکہ بھیک میری عزتِ نفس پر بوجھ ہوگی مجھے آپ سے قرضِ حسن کی ضرورت ہے ایسا قرض کہ جس سے میں اپنے خاندان کی پرورش کرسکوں اور اپنے بچوں کی تعلیم و علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر ضروریات بھی پورا کرسکوں میں اسے قرضِ حسن اس لئیے کیہ رہی ہوں کہ میں سود پر بھی راضی نہیں کیونکہ سود میرے دینی اقتدار کی منافی ہے میں اللہ اور اس کے پیغمبر ﷺ سے اعلان جنگ نہیں کرنا چاہتی ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میں اس خاتون کی باتیں سن کر مزید حیرت میں مبتلا ہوا دراصل میرے سامنے میری زندگی میں پہلی بار کسی ایسے ضرورتمند سے سامنا ہوا جو حقیقتاً ضرورتمندوں کی فہرست میں ہونے کے باوجود اپنے عزت نفس کو کسی طور مجروح نہیں کرنا چاہتی وہ وقار سے جینا چاہتی ہے اور مزید میرے لئیے حیرانی کی بات وہ مجھ سے مدد طلب کررہی ہے پر اپنے شرائط پر پھر میں نے اپنے قریبی دوست کی مدد سے ہم نے دس ہزار روپے بندوبست کرکے اس عورت کو دئیے اس نے ان دس ہزار روپوں سے دو سلائی کی مشینیں خریدیں اور یوں اس کے گھر ایک حلال روزی کمانے کے زرائع پیدا ہوئے اور ایک محنت بھری زندگی کا آغاز ہوا
مزید امجد ثاقب فرماتے ہیں کہ چھ ماہ گزر گئے اور میں اس واقعہ کو بھول چکا تھا لیکن وہ بہادر عورت نہیں بھولی تھی چھ ماہ گزر جانے کے بعد وہ پھر سے میرے روبرو بیٹھ گئی لیکن اس بار اس عورت کے آنکھوں میں آنسوؤں نہیں بلکہ خوشی کے آسار تھے اس نے اپنے دو پٹے کے پلو سے دس ہزار روپے نکال کر مجھے دئیے اور کہنی لگی کہ آپ کا خیال ہوگا کہ شاید میں واپس نہ آؤں لیکن میں ایسی خاتون نہیں وہ جرت مندانہ و بہادری کے لہجے میں اپنی ادھار واپس کرکے کہنے لگی امجد صاحب آپ کے اس چھوٹی رقم سے جو میں نے سلائی کی مشینیں خریدیں تھی اسی سے میں نے اپنے بچوں کا رزقِ حلال سے پیٹ پالا اور یہ نہیں بلکہ میں نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی بھی کروا دی یہ دس ہزار شاید آپ کیلے کوئی معانی نہ رکھتے ہوں پر میری زندگی بدل گئی اور میں بدحال سے خوشحال گھرانے والی خاتون بن گئی میں یہ گزارش کروں گی کہ یہ دس ہزار روپے کسی اور کو دیں شاید اس کی زندگی میں بھی خوشی اور مسرت کے چراغ روشن ہوجائیں
امجد ثاقب صاحب فرماتے ہیں کہ میری تمام تر زندگی یکطرفہ یہ ایک واقعہ نے مجھے حقیقی معانوں میں انسانیت سمجھا دی یہ نہیں بلکہ مجھے بھی اس معاشرے میں وہ انسان بنا ڈالا جسے اشرف المخلوقات کہتے ہیں اس کے بعد میں نے خلق خدا کی خدمت۔کیلے کمر قس لی اور دوست احباب کی مدد سے پھر دوبارہ دو لاکھ روپے جمع ہوئے ہم نے اس رقم سے تنگدست و لاچار لوگوں کی مدد کی جن میں کسی نے فروٹ۔کی ریڑھی لگا دی تو کسی نے چھابڑی اٹھا کر چھوٹی چھوٹی ضروریات کی چیزیں بیچیں جب ہمیں یہ دو لاکھ روپے واپس ملے تو ہمارا اعتماد اس معاشرے پر اور بڑھا بلکہ خود پر بھی یقین بڑھا یوں ہم نے اس کارواں کو آگے بڑھایا اور آج
ایک سو ارب روپے چالیس لاکھ خاندانوں کو دی جاچکی ہے اور گیارہ لاکھ خاندان بدحال سے خوشحال بن گئے اخوت کی اپنی یونیورسٹی اور ملک بھر کے مختلف شہروں میں سو فیصد سکالرشپ پر سکول و کالجز موجود ہیں
ڈاکٹر امجد ثاقب نے جس گلدستے کو وجود بخشا یہ عطائے رب جلال اور مصطفیٰ ﷺ کی فیضان ہے اور میں اپنے تمام شوسل ورکرز سے یہی کہتا ہوا آرہا ہوں کہ اپنی روائتی نظم کو تبدیل کریں اور خود میں امجد ثاقب جیسی اور اپنے ادارے میں اخوت جیسی تبدیلی کو یقینی بنائیں میرے ایک قریبی دوست جو پچھلے دس سالوں سے سماجی خدمات انجام دے رہا ہے میرے اشد اسرار پر انہوں نے بتایا کہ ہم۔سال میں تقریباً پچاس لاکھ سے زائد رقم کا بندوبست کرلیتے ہیں اور ہزاروں گھروں کو راشن علاج اور تعلیم کی مد میں مدد فراہم کرتے ہیں میں نے دل میں سوچا کاش کہ ہزاروں کے بجائے چند بیسیوں گھرانوں کو اپنے حلال روزی کمانے۔کے زرائع فراہم کرتے تو آج ان دس سالوں میں سینکٹروں خاندان اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے کاش کہ دقیانوسی اور روائتی سوچ سے نکل کر معاشرے کی اصلاح کیلے بھی سوچتے یہ کوئی مشکل نہیں کہ دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا اخوت آج اربوں روپے فراہم کرچکا ہے اور لاکھوں خاندان اس معاشرے میں اپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے ہیں فرض کریں اگر ڈاکٹر صاحب اس خاتون کو۔ادھار کے بجائے دو چار روپے سے ان کی مدد کرتا تو آج وہ عورت آنکھوں میں دور کے نظر کی عینک لگائے لکڑی کی مدد سے اپنے کم سن نواسے کے ساتھ اخوت کے دروازے پر کھڑے ماہانہ راشن لینے کیلے موجود ہوتی
خدا لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے اخوت پر اور ڈاکٹر امجد ثآقب صاحب کو لمبی عمر عطا فرمائے آمین