سیاست کشمیر اور اسلامی دنیا
تحریر: محمدسلیم رند
گزشتہ کچھ دنوں سے بالخصوص جبکہ پچھلی کئی دہائیوں سے بالعموم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کرہِ ارض پر موجود انسانیت کے ساتھ ظلم و ستم کی سب سے بڑی داستان ہے۔ یہ اک ایسی داستان ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا انتہائی حد تک ناممکن ہے ، کیوںکہ جو سب کچھ مظلوم کشمیری مسلمان سہہ رہے ہیں اس کے لیے الفاظ ابھی تک بنے ہی نہیں اور نہ ہی بن سکتے ہیں۔ انسانیت پر ظلم و ستم کی اک ایسی داستان ہے جس پر دنیا کی خاموشی نہ صرف بھارت کو ہمت دیتی ہے بلکہ اس دنیا کے منہ پر تمانچہ بھی ہے جو کتوں اور بلیوں کے حقوق کیلیے لڑنے والی قوموں کو مہذب اور ترقی یافتہ گردانتی ہے۔ ایک صدی ہونے کو ہے لیکن ظلم و ستم کی داستان ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ معصوم بچوں سے زیادہ قیمتی اس دنیا کے نزدیک جنگلی جانور ہیں، نہ صرف معصوم بچے بلکہ طلبہ و طالبات ، خواتین ، جوان اور عمر رسیدہ لوگ ہر کوئی پچھلے ستر سالوں سے ان درندہ صفت بھارتی افواج کے ظلم کو سہہ رہا ہے، لیکن مجال ہے کتے کی موت پر ہنگامے کرنے والے انسانیت کے لیے چند الفاظ ہی منہ سے نکال دیں۔
چلیں باقی دنیا کو چھوڑیں ، 58 اسلامی ممالک میں سے کسی ایک میں بھی اتنی ہمت نہیں ہیکہ ایک ملک کے خلاف دنیا کو یکجا کر سکیں، آج کی دنیا پیٹرولیم مصنوعات پر چل رہی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کا سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کے پاس ہے لیکن باوجود اس مسلمان ہی دنیا میں دبے ہوئے ہیں۔ دنیا میں یہودیوں کے پاس ایک ملک ہے لیکن دنیا کو آگے لگا کر رکھا ہوا ہے، ایک ملک والے ہندوو¿ں کے سامنے 58 مسلمان ممالک بے بس بیٹھے ہیں، او آئی سی کی تخلیق محض ایک ڈرامہ ثابت ہوئی، آج تک کسی ایک مسئلے کے حل کیلیے 58 ممالک یکجا نہیں ہو سکے۔ کونسی دنیا میں بس رہے ہیں یہ مسلمان، وہی مسلمان جو اقلیت ہونے کے باوجود صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کرتے رہے، وہ مسلمان جو ایک بچی کی آواز پر سترہ سالہ لڑکے کی قیادت میں سندھ فتح کر چکے، کہاں گیا وہ محمود غزنوی، کہاں گئی وہ عظیم سلطنتیں جو مسلمانوں کے زیر تھیں۔ دراصل ہم وہ مسلمان نہیں رہے، ہم ایک قوم نہیں رہے۔ ہم وہ نہیں رہے جن کے بارے میں ہمارے نبی آخرزماں (ص) نے کہا تھا کہ “مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم لرز جاتا ہے”(مفہوم)۔
نہ مسلمان وہ رہے نہ مسلمان طاقتیں، مغرب کے پاو¿ں میں پڑی یہ ساری طاقتیں اپنی ذاتی باقیات اور مفادات کیلیے ہی منتیں ترلے کر سکتی ہیں باقی ان سے امید لگانا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہی ہے۔ اور مغربی طاقتیں اپنا کاروبار انہی طریقوں سے چلاتی ہیں، اگر امن ہو گیا تو مغربی اسلحے کی سب سے بڑی مارکیٹ کہاں جائے گی، کسے بیچے گی وہ اپنا اسلحہ، اس کے علاوہ کون اس کے ماتحت رہے گا اگر ہر طرف امن و خوشحالی ہو گی۔ اپنا کاربار چلانے کیلیے انسانیت اور خصوصاً مسلمانوں کو ہی دنیا بھر میں نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ ان کے نزدیک سب سے کمزور اور بکھری ہوئی قوم یہی ہے اور یقیناً وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ ہم ہی سب سے زیادہ بکھرے ہوئے ہیں، ہم ہی نے خود کو کمزور کیا ہے۔
باتیں زیادہ ہو رہی ہیں شائد اکتاہٹ ہو گئی ہو گی قارئین کو لیکن پاکستانی ہیں تو تھوڑا احوال پاکستانی سیاستدانوں کا بھی سناتے چلتے ہیں، حالیہ دنوں میں جب کشمیر پر بھارتی جارحیت تیز ہوتی جا رہی ہے اور کشمیری عوام پاکستان اور پاکستانی سیاستدانوں کی طرف نظر کیے ہوتے ہیں انہی حالات میں پاکستان میں سیاست عروج پر ہے، اپوزیشن پہلے سینیٹ اور اب مختلف اوقات میں اپنی سیاست بچانے کے لیے پاو¿ں مارتی نظر آ رہی ہے جبکہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اپوزیشن کے خلاف بیانات اور اپوزیشن کو زیر کرنے کی بھر پور کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ کے دو گروہوں میں سے ایک سیاست بچانے کے لیے ان ہاو¿س ہاتھ پیر ہلا رہا ہے جبکہ دوسرا گروپ آئے روز جلوس اور ریلیاں نکالنے میں مصروف ہے۔ مریم نواز صاحبہ آج کل اپنے والد کو بچانے کیلیے پرعزم اور ریلیاں نکالنے میں مگن اس بات سے قطع تعلق کے کشمیر میں آئے روز کتنے ہی باپ ، بھائی، مائیں اور بچے اپنی زندگی آزادی کی آس لگائے کھو دیتے ہیں۔ لیکن محترمہ کو ایک شخص کو جیل سے نکلوانا ہے یا اس شخص کے جیل میں ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام میں اپنی مقبولیت بنانا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ اپنے والد کے جیل میں ہونے کو اپنی سیاسی پوزیشن بنانے کیلیے اور اپنے آپ کو مستحکم کرنے کیلیے استعمال کر رہے ہیں۔ محترمہ اپنا نام بنانے میں اتنی مگن ہیں کہ تھوڑا درد تھوڑا احساس آئے روز شہید ہونے والوں کیلیے بھی نہیں ہے۔
بلاول اور پیپلز پارٹی کی بھی ایسی ہی صورتحال ہے، اپنے آپ اور اپنی سیاست بچانے کیلیے تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔
حکومت اپنے آپ کو بچانے میں مصروف ہے۔ ایسا لگ رہا ہے قیامت برپا ہو گئی ہے اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔
اللہّٰ سب کو ہدایت دے اور کشمیری عوام اور تمام مسلانوں پر جہاں کہیں بھی ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں ان پر اپنا رحم کرے اور سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔