ڈینٹر، چوہدری اور پڑوسی
چوہدری صاحب نے کار خریدی ،چلانی آتی نہیں تھی مگر دھن کے پکے تھے خود ہی لے کر نکل جاتے تھے۔ ہفتہ بھر میں کار جگہ جگہ سے ٹکریں کھا کھا کر پچک گئی۔ کسی نے کہا یہ ڈینٹ شینٹ نکلوا لیں کسی ڈینٹر سے۔
چوہدری صاحب محلے کے ڈینٹر کے پاس گئے۔ ڈینٹر ان کی کنجوسی سے اچھی طرح واقف تھا کہ یہ کام کرا کر پیسے دینے کے چور ہیں۔
چوہدری صاحب نے کار دکھائی۔ ڈینٹر بولا چوہدری صاحب پھونکیں مار کر یہ ڈینٹ نکال لو۔ اور پھر سائلنسر دکھا دیا کہ یہاں سے پھونکیں مارنا۔
چوہدری صاحب خوش خوش گھر آ گئے۔ کار کھڑی کرکے سائلنسر میں منہ لگا کر پھونکیں مارنا شروع کر دیں۔
تھک کر لال اور پسینے پسینے ہو گئے۔ مگر جہاں سے گاڑی پچکی تھی ذرا برابر فرق نہیں پڑا۔
اب تھک کر سانس لینے بیھٹے اور گھوم گھوم کو چاروں طرف سے گاڑی کو دیکھناشروع کیا۔
پڑوسی نے دیکھا تو پوچھا کہ کیا ہوا چوہدری صاحب ؟تو چوہدری نےمسئلہ بتایا۔
پڑوسی پیٹ پکڑ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔
چوہدری صاحب نے پوچھا “کیا ہوا
کیوں ہنس رہے ہو ؟”
پڑوسی کہنے لگا
“چوہدری صاحب تسی بھی وڈے سادے او۔ گڈی دی کھڑکیاں تو کھلی ہوئی ہیں۔ ہوا تو سب نکل جاتی ہوگی یہ تو بند کرو۔”
تو ملکِ پاکستان کو بھی ایک ڈینٹر، ایک چوہدری اور ایک پڑوسی مل گیا ہے۔
انڈسٹری بند ہے۔ معیشت ٹھیک کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے۔ مگر کرائے کا وزیر خزانہ ملک خوشحال کردے گا۔ اسے کہتے ہیں دیوانے کا خواب، یا پھر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تھُوک سے پکوڑے تلنا، مُوت سے مچھلیاں پکڑنا وغیرہ وغیرہ۔ آگے میں زیادہ کیا بولوں آپ سمجھدار ہیں۔ مگر ان جیسے سمجھداروں کے نزدیک کوئی سمجھداری کی بات کرنا ، انکے نزدیک گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ سب اوپر سے ہی ہدایت یافتہ ہو کر آئے ہیں۔