یومِ عاشورہ کی مناسبت سے بلوچستان رائٹرز گلڈ (برگ) کی تقریبِ خاص

0 320

حسنین کریمین، ائینہ نورِ مصطفیٰ ہیں کہ جن کا چہرہ انور اور جسمِ اطہر مشابہ رسول ہے۔ جو نبی مکرّم کے باغ کے پھول اور جنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ جن کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ” جس نے حَسن و ح±سین کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، ا±س نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔“ ایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں خطبے کے دَوران نبی کریم نے حضرت ح±سین کو اپنے زانوئے مبارک پر بٹھایا اور صحابہ سے فرمایا” لوگو! پہچان لو، یہ میرا نواسہ ح±سین ہے۔ ح±سین مجھ سے ہے اور مَیں ح±سین سے ہوں۔“ اپ سات برس تک سرورِ کونین کے زیرِ سایہ پرورش پاتے رہے اور حضرت علی مرتضیٰ کی شفقتِ پدری، خاتونِ جنّت، سیّدہ فاطم الزّہرا کی اغوشِ محبّت میں صبر و استقامت، حق و صداقت، جرات و شجاعت، تسلیم و رضا، ایثار و قربانی اور نانا کے دین پر مر مِٹنے کا درس لیتے رہے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ 61ہجری 10محرّم الحرام کو ارض و سما نے کربلا کے صحرا میں حق وباطل کا محیّرالعقول واقعہ دیکھا کہ جب حاکمیتِ الہیٰ اور شریعتِ محمدی کے تحفّظ و بقا کے لیے نواسہ رسول اور لختِ جگر علی و بتول نے یزیدیت کے سامنے سَر جھکانے کی بجائے اپنے گھرانے کے افراد کو نانا کے دین پر قربان کردیا۔ ایک ایک کرکے عزیز و احباب اور جگر گوشوں کے لاشے خاک و خون میں تڑپتے رہے۔ معصوم بچّوں کے سینے زہر الود تیروں سے چھلنی ہوتے رہے۔ پیاسی اور بھوکی بچّیوں کی صداﺅں سے کربلا کی فضائیں لرزتی رہیں، یہاں تک کہ اپ نے خود بھی سیکڑوں دشمنوں کے سَر قلم کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما کر مظلوم انسانیت کو وقت کے یزیدوں کے سامنے کبھی نہ ج±ھکنے کا لازوال سبق دیا۔واقعہ کربلا دراصل تاریخِ انسانیت کا وہ بڑا سانحہ ہے کہ جس نے تاریخ کے اوراق میں حق و صداقت کے ایک نہایت روشن باب کا اضافہ کرکے مظلوم انسانوں کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے خلاف باطل قوّتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا شعور دیا۔نواسہ رسول، شہیدِ کربلا نے طاقت کے نشے میں چ±ور، تکبّر و نخوت کے پیکر، یزید کو ببانگِ دہل للکار کر شجاعت و بہادری کی وہ عظیم الشّان مثال قائم کی کہ جس نے جہاں ایک طرف، دنیا کو حیرت زدہ کردیا، تو دوسری طرف، کربلا کے صحرا میں بہنے والے خانوادہ ح±سین کے خون نے اسلام کو نئی زندگی عطا کی۔
اِن خیالات کا اظہار برگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ یاد
رہےصوبے کی فعال و متحرک ادبی تنظیم ” بلوچستان رائٹرز گلڈ (برگ)” نے حسبِ
روایت امسال بھی یومِ عاشورہ کی مناسبت سے ایک بابرکت تقریب *یادِ حسین* کے عنوان سے منعقد کی ، تقریب میں ممتاز شاعر اور ادیب پروفیسر انور زیب ، معروف شاعر پروفیسر رشید حسرت ، اسلامی اسکالر ڈاکٹر خالد حبیب اور شیخ فرید نے شہادتِ حسین اور
واقعہ کربلا کے موضوعات پر پ±ر مغز اور سیر حاصل مقالات پڑھے جبکہ مقامی شعرائ کرام نے بارگاہِ عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کے حضور اپنی شاعری کا عقیدتوں بھرا نذرانہ پیش کیا۔ نظامت کے فرائض شارق شیخ نے سر انجام دیئے۔ پروفیسر رشید حسرت نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہتاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لئے عبرتوں کا مرقع ہے۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر اج تک اور شاید قیامت کی صبح تک کوئی ایسا واقعہ ر±ونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا اگیا ہو ، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں لے لے کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے اعتنائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے الم ناک اور درد انگیز واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی اج کل ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک ا کے چشم و چراغ اور ا±ن کے ستر، بہتر متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری جیسے ایسے محیر العقول واقعات ہیں کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ڈاکٹر خالد حبیب نے اپنے خطاب میں کہا کہاہل کوفہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ہے تو کچھ حضرات سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید
کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں،اپ فوراً کوفہ تشریف لے ائیں ، ہم سب اپ کے ہاتھ ہر بیعت کرلیںگے اور یزید کی طرف سے مقرر کیے ہوئے کوفہ کے امیر نعمان بن بشیرص کو یہاں سے نکال دیں گے۔اِس کے دو دن بعد ان لوگوں نے اسی مضمون کا ایک خط امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا اور چند دوسرے خطوط بھی اپ کے
پاس بھیجے ،جن میں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا تھا۔پروفیسر انور زیب نے کہا سانح کربلا یا واقعہ کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ئ ) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علی کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ عجب خان سائل نے واقعہ کربلا کے حوالے سے خطاب کرتےہوئے کہا کہمحرم کی دسویں دن حسین بن علی اور عمر سعد کی لشکروں کا آمنے سامنے تھا۔ ابو مخنف کے مطابق امام حسین کی فوج کی تعداد 32 گھڑسوار اور 40 پیادہ تھا اور امام محمد باقر کے مطابق پینتالیس گھڑسوار اور ایک سو پیادہ تھے۔ اس کے سامنے عمر بن سعد کی فوج تھی جس میں 30،000 کے قریب جوان تھے۔ جنگ شروع ہوئی اور حسین اور اس کے ساتھی مارے گئے۔ حسین کی شہادت کے بعد، عمر بن سعد کی فوج نے حسین کی فوج کے 72 ارکان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اجسام پر گھوڑے دوڑائے۔ جنگ کی وجہ
یہ کی کہ حسین ابن علی نے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کی۔کربلا کی لڑائی کو واقعہ الطف کہا جاتا ہے۔ واقعہ کربلا کو اسلامی تاریخ کی ایک متنازع لڑائی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس لڑائی کے نتائج اور تفصیلات سے سیاسی نفسیاتی اور نظریاتی مضمرات تھے جو آج بھی عصر حاضر تک تنازع کا شکار ہے، کیوں کہ یہ معرکہ ان حقائق کے سلسلے میں سب سے نمایاں واقعہ ہے جس نے سنیوں اور شیعوں کے مابین
تعلقات کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ پوری تاریخ میں، جنگ کربلا اور اس کی لمحاتی تفصیلات شیعوں اور ان کی سب سے اہم ثقافتی بنیادوں میں سے ایک علامت بن گئیں۔ چیئر مین بلوچستان رائٹرز گلڈ (برگ) شیخ فرید نے اپنے مقالہ میں بتایا کہ ، ائینہ نورِ مصطفیٰ ہیں کہ جن کا چہرہ انور اور جسمِ اطہر مشابہ رسول ہے۔ جو نبی مکرّم کے باغ کے پھول اور جنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ جن کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ” جس نے حَسن و ح±سین کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، ا±س نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔“
ایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں خطبے کے دَوران نبی کریم نے حضرت ح±سین کو اپنے زانوئے مبارک پر بٹھایا اور صحابہ سے فرمایا” لوگو! پہچان لو، یہ میرا نواسہ ح±سین ہے۔ ح±سین مجھ سے ہے اور مَیں ح±سین سے ہوں۔“ اپ سات برس تک سرورِ کونین کے زیرِ سایہ پرورش پاتے رہے اور حضرت علی مرتضیٰ کی شفقتِ پدری، خاتونِ جنّت، سیّدہ فاطم الزّہرا کی اغوشِ محبّت میں صبر و استقامت، حق و صداقت، جرات و شجاعت، تسلیم و رضا، ایثار و قربانی اور نانا کے دین پر مر مِٹنے کا درس لیتے رہے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ 61ہجری 10محرّم الحرام کو ارض و سما نے کربلا کے صحرا میں حق وباطل کا محیّرالعقول واقعہ دیکھا کہ جب حاکمیتِ الہیٰ اور شریعتِ محمدی کے تحفّظ و بقا کے لیے نواسہ رسول اور لختِ جگر علی و بتول نے یزیدیت کے سامنے سَر جھکانے کی بجائے اپنے گھرانے کے افراد کو نانا کے دین پر قربان کردیا۔ ایک ایک کرکے عزیز و احباب اور جگر گوشوں کے لاشے خاک و خون میں تڑپتے رہے۔ معصوم بچّوں کے سینے زہر الود تیروں سے چھلنی ہوتے رہے۔ پیاسی اور بھوکی بچّیوں کی صداﺅں سے کربلا کی فضائیں لرزتی رہیں، یہاں تک کہ اپ نے خود بھی سیکڑوں دشمنوں کے سَر قلم کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما کر مظلوم انسانیت کو وقت کے یزیدوں کے سامنے کبھی نہ ج±ھکنے کا لازوال سبق دیا۔واقعہ کربلا دراصل تاریخِ انسانیت کا وہ بڑا سانحہ ہے کہ جس نے تاریخ کے اوراق میں حق و صداقت کے ایک نہایت روشن باب کا اضافہ کرکے مظلوم انسانوں کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے خلاف باطل قوّتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا شعور دیا۔نواسہ رسول، شہیدِ کربلا نے طاقت کے نشے میں چ±ور، تکبّر و نخوت کے پیکر، یزید کو ببانگِ دہل للکار کر شجاعت و بہادری کی وہ عظیم الشّان مثال قائم کی کہ جس نے جہاں ایک طرف، دنیا کو حیرت زدہ کردیا، تو دوسری طرف، کربلا کے صحرا میں بہنے والے خانوادہ ح±سین کے خون نے اسلام کو نئی زندگی عطا کی۔ تقریب کے اختتام پر شرکاءکے اعزاز میں دلیم کی ضیافت دی گئی۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.