فکرِ اقبال اور موجودہ صورتحال (شمع و شاعر)
رمشا غلام شبیر
۱۴ اپریل ۱۹۱۲ کو اقبال نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں اپنی تاریخ ساز نظم ”شمع و شاعر“سنائی۔ یہ نظم ملت ِ اسلامیہ کی اُس وقت کی صورتحال کے پیش نظر اقبال کے فکر و فن میں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ نظم جنگ طرابلس اور بلقان کے دوران لکھی گئی جب ترکی مغربی طاقتوں کے شدید دباو میں تھا۔مگر اُس دور اور اسی پس منظر میں لکھی جانے والی دوسری نظموں اور اس نظم میں جذبے و احساس اور فکر و فن کے لحاظ سے بڑا فرق ہے
اقبال نے دیکھا کہ دین اور دنیا دونوں کے متعلق مسلمانوں کا زاویہ نگاہ غلط ہو گیا ہے ۔حکمت کو سوزِ عشق سے گرما کر اور شعر کی اثر آفرینی سے کام لے کر ان کے نفوس میں انقلاب پیدا کرنا چاہیے۔مسلمانوں کی آرزوئیں غلط ہو گئی ہیں ان کی آرزوو ں کو بدلنا چاہیے۔اس قوم کا حقیقت میں کوئی نصب العین نہیں رہا اسی لیے اس کی کوششیں بے نتیجہ ہو گئی ہیں اس کی خواہشیں پست ہو گئی ہیں اس لیے علامہ نے مسلمانوں کی اس حالت کو شمع و شاعر کے اس شعر میں یوں بیان کیا ہے:
قیس پیدا ہو تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا ترا
علامہ کہتے ہیں ہماری قوم کے دیندار ہوں یا دنیادار ان کا میدان نہایت وسیع ہوتا ہے اور محمل بے لیلا وہ دل ہے جس میں مقصود زندگی اور غایت حیات کا کوئی تصور نہ ہو جو اپنی کشش سے انسان سے مجنوں کی سی جدوجہد کرا سکے۔بڑے بڑے کام عشق یا جنون ہی سے ہوتے ہیں جہاں میدان عمل تنگ ہے اور محمل میں لیلیٰ ہی نہیں وہاں قیس جیسے مجنوں کہاں پیدا ہوں گے۔افسوس ہے کہ اس قوم کا کوئی نصب العین نہیں، ہر فرد اپنے ادنیٰ مفاد عاجلہ میں لگا ہوا ہے اور اپنی ذات سے باہر اس کے لیے کچھ نہیں۔اس میں کوئی زندہ تمنا نہیں جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے، لیکن قوم کی ایسی حالت کے باوجود بھی اقبال مایوس نہیں تھے۔مایوسی ان کے نزدیک کفر کے مترادف تھی۔وہ اسی اُمید میں اپنے آنسووں سے اس مٹی کو تر کرتے رہے کہ:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
شاعر مشرق کی طویل نظم شمع و شاعر گیارہ بند پر مشتمل ہے۔شمع و شاعر کے مابین ایک مکالمہ پیش کیا ہے۔اس مکالمے میں اقبال نے اپنے افکار کے حوالے سے بہت سی اہم باتیں کہی ہیں۔پہلا بند فارسی اشعار پر مشتمل ہے اس میں شاعر کا شمع سے مکالمہ ہے باقی کے دس بند میں شمع از خود شاعر کے استفسارات کا جواب دیتی ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ کل میں نے اپنے ویران اور اُجاڑ گھر میں جلنے والی شمع سے استفسار کیا کہ پروانے جو ہمہ وقت تیرا طواف کرتے رہتے ہیں جابجا طور پر تجھ پرجان نثار کرتے ہیں جب کہ میری شخصیت تو اس گلِ لالہ کی مانند ہے جو جلتا رہتا ہے تا ہم اس کے گرد طواف کوئی نہیں کرتا۔جس کے مقدر میں نہ کوئی محفل ہے نہ ہی کوئی ڈھنگ کا گھر ہے۔حیرت ہے کہ میرا کوئی شیدائی نہیں ہے جب کہ آرزو ں اور خواہشوں میں صِرف ہونے والی میری جان اس عالم رنگ وبو میں ہزاروں جلوے پیدا کر رہی ہے۔اے شمع! آخر تو نے پوری دنیا کو روشن کرنے والی یہ روشنی کہاں سے حاصل کر لی۔جس کے سبب ایک بے حقیقت پروانے کو حضرت موسیؑ جیسا سوز مل گیا۔
شمع اس مرحلے پر شاعر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ہر چند تیری اور میری کیفیت ایک جیسی ہے مگر فرق یہ ہے کہ جو موجِ نفس تیرے لیے نغمہ پیرائی کا سبب بنتی ہے وہی میرے لیے موت کا پیغام بن جاتی ہے۔میں محض اس لیے جلتی ہوں کہ میری فطرت میں مقدر نے جلنا لکھ دیا ہے جبکہ تو اپنی تخلیقات میں اس لیے سوز پیدا کرتا ہے کہ تیرے اشعار کو سننے والے تیرے دیوانے بن کر رہ جائیں۔میں تو اس لیے آنسو ٹپکاتی ہوں کہ میرے دل میں آنسوو ں کا ایک طوفان برپا رہتا ہے
جبکہ تُو اس لیے روتا ہے کہ سننے والے کے دل میں تیری ہمدردی پیدا ہو اور وہ تجھ سے محبت کا اظہار کر سکیں۔میں راتوں کو جل جل کر آنے والی صبح کے لیے بے انتہا قربانیاں دیتی ہوں جبکہ تیرا مستقبل تیرے حال سے واقف نہیں مطلب کہ تو مستقبل کی بہتری کے لیے جدوجہد نہیں کرتا۔ بے شک تُو بھی میری طرح جلتا رہتا ہے لیکن تیرے دل میں وہ حقیقی سوز نہیں جو میری فطرت میں ہے لیکن تیرا شعلہ تو لالہ صحرا کے رنگ روپ کی طرح ہے تو خود کو قوم کی مشکلات سے نبرد آزمائی کا دعویدار کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے لیکن ذرا سوچ کہ تیرے لیے یہ لقب کہاں تک موزوں ہے جب کہ نہ تیرے پاس عمل کی قوت ہے نہ ایسے وسائل کہ قومی معاملات کو کامیابی سے ہم کنار کر سکے۔ تیری قوم تو بے وسیلہ ہے اور تُو بھی بے عمل اور خالی ہاتھ ہے۔
اے شاعر! حقیقت یہ ہے کہ تیری غلط طرز عمل اور اس کے ساتھ بے عملی نے پوری قوم کو بدنام کر دیا ہے اس لیے بھی کہ تیرا طرز عمل ملت کے اصولوں کے منافی ہے۔بظاہر تو حَرم کعبہ کا پرستار ہے جبکہ عملاًتیری فطرت بت کدے سے ہم آہنگ ہے۔تیری قوم میں اب قیس جیسے عاشق اور دیوانوں کا پیدا ہونا ممکن نہیں رہا کہ نہ تیرے پاس وہ جوہر آبدار ہے اور نہ سرمایہ افتخار جوکبھی ہوتا تھا۔
تو بے شک ایک ایسے آبدار موتی کی مانند ہے جو تند و تیز موج کی آغوش میں پلا لیکن اس کا کیا جائے کہ جس دریا میں تو نے پرورش پائی ہے وہ طوفان سے آشنا ہے۔مطلب تُو اور تیری قوم بے حسی اور بے عملی کے سبب نا کارہ ہو چکی ہے تیری قوم میں توانائی نہیں رہی جو انقلابوں کو جنم دیتی تھی۔اب اس آہ و فغاں کا کیا فائدہ جب تیرا گلستان برباد ہو کر گیا ہے۔تیرے اشعار تو بے وقت کی راگنی کی حیثیت رکھتے ہیں جو ملت کی بیداری میں قطعی مدد گار ثابت نہیں ہو سکتے۔
اے شاعر! ملت اسلامیہ کے وہ باشعور افراد جو ساری صورتحال کو سمجھنے کا ادراک رکھتے تھے وہ تو اب اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ان کے جانے کے بعد تُوحالات کی بہتری کی اُمید لے کر آیا ہے تو اس کا کیا فائدہ، جب گلستان ہی اُجڑ گیا اور اس کا شیرازہ ہی منتشر ہو گیا
تو اس لمحے بہار کی تازہ ہوا کے پیام کی نوید بے معنی سی بات ہے۔وہ منظر تو کب کا نظروں سے غائب ہو چکا جب تیری قوم اپنے عروج کے آخری لمحات میں تھی۔وہ اضطراب اور تڑپ ناقابل فراموش ہے لٰہذا اس کے بعد کوئی بہتری کے امکانات پیدا بھی ہو جائیں تو ان سے کیا مل سکے گا۔اس لیے کہ ملت کے دلوں میں جد وجہد اور انقلاب کا جو شعلہ بھڑک رہا تھا وہ بجھ کر رہ گیا،اس کے بعد اگر کوئی اس شعلے کو ہوا دینے آیا بھی تو یہ ایک بے معنی سا عمل ہو گا کہ جس قوم کے عمل میں احساس ذمہ داری نہ رہے وہ مُردہ بن کر رہ جاتی ہے۔
خیر تو ساقی سہی، مگر پلائے کا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی، نہ مےخانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئے مینار سے
کل تک گردش میں جس ساقی کے پیمانے
شمع و شاعر سے ایک اور شعر:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
شمع و شاعر میں اقبال شمع کی زبانی قوم کے شاعروں کو جگاتے ہیں کہ شاعر دراصل قوم کا وہ سرمایہ ہیں جو اپنی قوم کو تسبیح کے دانوں کے طرح یکجا کر سکتا ہے۔شمع کہتی ہے کہ اے شاعر! تُو بتا کہ تیرے ہوتے ہوئے تیری قوم کیونکر انتشار کا شکار ہوئی۔اب تو ایسی کیفیت ہے کہ قوم کے افراد سے ماضی کی سی جدوجہد اور بلند فکری کی خصوصیات ناپید ہو چکی ہیں۔ایسی کیفیت میں اگر چند افراد میں قربانی اور جد و جہد کی تڑپ موجود بھی ہو تو اس کا کیا فائدہ،اگر تجھے ساقی بھی تصور کر لیا جائے تو شراب کیسے پلائے گا جبکہ نہ پینے والے باقی رہے نہ وہ شراب خانے۔ افسوس تو اس بات کا ہے ک قوم کے دل دے اس بربادی اور تباہی کا احساس بھی ختم ہو چکا ہے۔
اے شاعر! اچھی شاعری پیغبری کا جزو ہوتی ہے اور یہ مسلمانوں کو رہنمائی کی راہ دکھا سکتی ہے ۔ تو اے شاعر ! قوم کو اپنی شاعری کے ذریعے بیدار کر دے اور مردہ دلوں کو تڑپ سے نواز دے۔تیری قوم ایک عرصے سے خود سے بے نیاز ہو چکی ہے کمر ہمت باندھ لو۔دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی تہذیب،ملی و معاشرتی اقدار کو فروغ دے۔شمع اپنی ہی مثال دیتی ہے کہ شمع رات بھر جلتی رہتی ہوں اور اس کے شعلے کے سبب لاتعداد پروانے جل کر خاک ہو جاتے ہیں شمع سے اس ظلم و ستم کا انتقام لینے کا واحد راستہ یہ ہے کے جو پروانے جل کر خاک ہو جاتے ہیں ان سے نئی صبح وجود میں لائی جائے۔ظاہر ہے کہ صبح کی روشنی نمودار ہوتے ہی شمع کی زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے یعنی اس کا وجود غیر ضروری ہو جاتا ہے۔اگر تجھے حالات نے انتہائی پستی سے ہم کنار کر دیا ہے تو اس کی پرواہ نہ کر۔تو بھی حوصلہ رکھ اور عملی جدوجہد جاری رکھ۔
بلآخر آخری اشعار میں اقبال اُمید دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ جن مصائب سے دو چار ہو چکی ہے اب وقت آگیا ہے کہ یہ مصائب ختم ہو کر رہ جائیں گے۔اب نور سحر کا وقت ہے۔ تمام مسلمان پھر سے سرور کائنات کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں سر خرو ہو سکتے ہیں۔شاعر کہتا ہے کہ میں اتنے بڑے انقلاب کا منظر نامہ دیکھ رہا ہوں جس پر مجھے خود بھی حیرت ہے اور اس انقلاب کے سبب دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی اور ہر طرف نغمہ توحید سنائی دے گا یعنی ملت اسلامیہ کو ایک بار بھر عروج حاصل ہو گا۔مگر اس کے لیے وہی جوش وہی جذبہ پھر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آسکتا نہیںمحو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
آج بھی ہمیں اقبال کے افکار کو از خود سمجھنے کی ضرورت ہے۔اپنی قوم کے نوجوانوں کو جگانے کی ضرورت ہے۔قوم کہ نوجوان جو مغربیت کے اسیر ہو چکے ہیں اُن کو از سر نو اسلامی افکار سمجھانے کی ضرورت ہے۔اس میں اقبال نے ایک شاعر کا کردار نمایاں کر کے دکھایا ہے۔قلم کی طاقت سے قوموں کے دلوں کو جھنجھوڑا جا سکتا ہے ۔بس اس قلم میں اقبال کی سی چاشنی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔پھر انشااللہ وہ وقت دور نہ ہو گا جب ہماری قوم ایک بار پھر روشن آفتاب کی طرح دنیا کے نقشے پر اُبھرے گی اور غیر ملکی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نظر آئے گی