کاوش صدیقی کی ایک اور کاوش

0 92

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ فرید
کاوش صدیقی چھوٹی سی ادبی دنیا کا بہت بڑا نام ہے ، صدیقی کی ادبی کاوشوں نے اُسے کاوش صدیقی کے نام سے تخلیق کے برزخ پر پپنچا دیا ہے ، اُس کی کاوشیں اُسے بڑا ادیب نہیں بناتیں بلکہ وہ اپنی کاوشوں سے ادب اور ادیب کی پہچان بن گیا ہے ۔ دنیائے ادب کے درخشندہ آفاق پر کاوش صدیقی کے ادبی سہہ پارے اُن جھلملاتے ماہ و انجم کی طرح ہیں جو جگمگاتے ہیں تو ادبی کہکشائیں بکھرتی ہیں ۔
اُس کا قلم روشنیاں بانٹتا ہے ، اور اُس کے قارئین ادب کی چکاچوند چمک سے اپنے ذہن و قلب کو منور کرتے ہیں ۔
کاوش سے میں صرف دو بار ملا ہوں ۔ پہلی مرتبہ ادکامی ادبیات اسلام آباد کی سہہ روزہ ادبی کانفرنس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی اور دوسری بار لاہور میں ادبِ اطفال کے حوالے سے منعقدہ کل پاکستان ادبی کانفرنس میں ہم ملے تھے ۔
کاوش صدیقی باکمال لکھاری ہیں اُن کے قلم کی جولانیوں کا۔کینونس بہت وسیع ہے جہاں ہمیں ناول ، افسانے اور کہانیوں کے ہزارہا رنگ اہنی پوری آب و تاب سے ملتے ہیں ۔
وہ پاکستان کے اُن چیدہ ادی وں میں سرِ فہرست ہیں جو ملک کے سب سے معتبر میگزین اخبارِ جہاں میں تواتر کے ساتھ چھپتے ہیں ، اُن کا ناول جل پری بھی مذکورہ میں شائع ہو کر بامِ عروج کو چھو چکا ہے ۔جل پری پر ہمارے دوست حنیف چوہان نے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے جون و عن قارئین کی نذر ہے
کسی بھی لکھنے والے کو اس کےپڑھنے والے بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں، اتنی اچھی طرح کہ وہ اپنے لکھے ہوئے ناول کے کس کردار میں اور کس مکالمے میں ان سے مخاطب ہے یا اظہار ذات اور تخلیق کے نئے زاویے کی زمزمہ پروازی کررہا ہے ۔ وہ جانتے ہیں۔بات  کھلے عام کہی گئی ہو یا اشارے کنائیوں میں ،
ذات کے بھیتر اترے بغیر تخلیق چاہے ادب کا معاملہ ہو یا پاپولر فکشن رائٹنگ ۔ گہرے تجربے ، عمیق مشاہدے اور بے پناہ مطالعے کے بغیر ممکن نہیں ہے اور تخلیق کی گھمن گھیریاں تو ایسی بھول بھلیوں کی طرح ہوتی ہیں کہ پل کے پل دنیا ایک سراب سے نکل کر پرستان کے ایوانوں میں محو رقص ہورہتی ہے ۔
کاوش صدیقی کے مکالموں اور منظر نگاری میں زندگی موجود ہوتی ہے۔ وہ انسانی فطرت کی نہاں خانوں سے ایسا کچھ کشید کرتے ہیں کہ دلچسپی حیرت کے پیراہن سے نکل کر قاری کی آنکھوں میں دکھائی دینے لگتی ہے ۔ ایک جگہ جب راول اپنی ان دیکھی محبوبہ سے شادی کے بارے میں بتا رہا ہوتا ہے کہ اس نے کس طرح سانولی کے متعلق سن سن کر عشق کیا اور رقابت میں اس کے دو منگیتر قتل کرکے اس سے شادی کی ۔اس پر طلال پوچھتا ہے پھر تو تم بہت خوش ہوئے ہوگے ؟
راول جواب دیتا ہے ۔” نہیں وہ تو جب میں نے اسے چھوا, مجھے محسوس ہوا۔بالکل سوکھی سی، سپاٹ گدازیت سے محروم وہ کسی خزاں رسیدہ مخلوق کی نمائندہ تھی۔ تب میں نے سوچا اس میں ایسا کیا تھا کہ اس کے لئے میں نے دو انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا؟
رائٹر نے لکھتے سمے کیسے سفر کئے کون سے کوہ گراں اور دشت کاٹے ، کیسی دلفریب مسرتوں سے ہم آغوش ہوا اور کتنے سپنے اس نے اپنی انگلی کی پوروں سے تار تار اور نکتہ بہ نکتہ بنے ہوتے ہیں یہ تو وہ ہی بتاسکتا ہے یا پھر اس کا فن اس کی قصہ کہنے کی بے کنار صلاحیت ،جس نے قاری سے اس کی سدھ بدھ لے کر اسے محبتوں اور شعور کی نئی روشنی میں نہلایا ہو ۔ آپ اگر اس کے قاری ہیں تو آپ کا والہانہ پن آپ کی دلچسپی یہ ظاہر کردے گی کہ جل پری سے آپ ملے ہیں یا ملنے کی تمنا میں تڑپ رہے ہیں ۔ اب اس تڑپ کی دیواروں میں سکون کی وہ لہر اترنے کو ہے جسے آپ اور بس آپ ہی محسوس کرسکتے ہیں ۔ محبتیں سمندروں کی طرح انگںت لہروں کے شور سے بنی ہوتی ہیں۔ جس کی کروٹیں اور جس کی لامتناہیت کو ماپا نہیں جاسکتا۔ جیسے سمندروں میں کتنی بوندیں ہیں یا بارش میں کتنے گھنگروبجے، برسات نے کتنے بہاؤ بہے ۔۔۔ کتنے بادل ٹوٹ کے برسے ۔۔۔ کون بتاسکتا ہے۔ ایسی ہی محبت ہوتی ہے، جس کے رمز اکثر کھل کے بھی بند رہتے ہیں۔ ان دروازوں کی طرح جو ہمیشہ دستک کے منتظر رہتے ہیں ۔۔۔
انسانی نفسیات پے چیدہ ہے ۔ تار عنکبوت کی طرح پیچ در پیچ الجھی ہوئی۔ ایک لکھنے والا اس کو کیسے محسوس کرتا ہے، کیسے اس کی تفہیم کرتا ہے اور پھر اس کیفیت کو اپنے قاری تک کتنے گہرے احساس کے ساتھ پہنچاتا ہے۔ یہ ہنر ہی در اصل قاری و لکھاری کے درمیان کا رشتہ مضبوط بناتا ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کاوش صدیقی آنچ ، بھید بھری محبت ، کچی عورت ، کھوکھلا مرد  سے جل پری تک کے سفر میں اپنے قاری کو ہمیشہ نئے جہانوں کی سیر کراتے رہے ہیں  ۔
جل پری میں کئی کردار ہیں پنڈت مدن موہن ، راول ، قادری بھائی ، نجم گل اور وہ جو کہانی کی بنت میں لوازم کی طرح اپنے ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔ کوئی بھی کردار اس وحدت سے جدا نہیں دکھائی دیتا جو کہانی کی چہار طرف پھیلی ہوئی شاخوں کو ایک مضبوط ، خوبصورت اور توانا شجر کی حیثیت عطا کرتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کاوش صدیقی اس طویل ناول میں کہنا کیا چاہتے ہیں ؟
وہ محبت  ، تعلق ، دوستی ، اور انسانی فطرت کی عکاسی کررہے ہیں۔ وہ فطرت انسان سے بے لگام اور عین رگ جاں سے لپٹی خواہشیں اور خواب جو انسانی وجود میں ناتمام ہیں کو بیان کرتے ہیں ۔وہ ان کی ٹیسوں سے اٹھتی ہوئی کراہوں سے سنبھلنے کی راہ دکھاتے ہیں ۔ پیار سے وفاداری ۔ اپنے جان من کے لئے کچھ بھی کر گزرنا۔
جیسے ۔۔۔
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں , جل پری ایک ایسا ہی فکشن ہے۔ جس میں جذبے اور احساس اور بے چینی اور عشق اپنے جوبن پر دکھائی دیتے ہیں! حال ہی میں یہ ناول اپنی حشرسامانی اور دیدہ زیبی کے ہمراہ کتابی صورت میں منظر عام پر آیا ہے ۔ پاکستان کی سب سے بڑی کتابوں کی نمائش جو کراچی میں آراستہ ہوتی ہے دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اس کی جلوہ نمائی اسی ایک تاریخی مقام پر ہونے کو ہے۔ اس کے بعد جل پری آپ کے سینے میں ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں ہمیشہ موجود رہنے والی ہے!

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.