بلوچستان صدر اور وزیراعظم کے دائرہ اختیار سے باہر ہے, گزین مری
بلوچ رہنما نوابزادہ گزین مری کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کی ذاتی خواہشات اپنی جگہ لیکن بلوچستان میں مفاہمت کی پالیسی طاقتور قوتوں کی مرضی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اپنے ایک انٹرویو میں گزین مری کا کہنا تھا کہ ’تمام مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر ممکن ہے مگر بلوچ مسلح تنظیموں اور ریاست پاکستان دونوں کو اپنے سخت مؤقف سے کچھ قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں غریب، مزدور اور نوکری پیشہ افراد کا قتل تخریب کاری اور دہشت گردی ہے
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے عندیے سے متعلق سوال پر گزین مری کا کہنا تھا کہ ’بات چیت یقیناً کافی پہلے ہونی چاہیے تھی مجھے پتا نہیں کہ عمران خان اس معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں لیکن اس سے پہلے بھی کئی صدور اور وزرائے اعظم ایسی خواہشات کا اظہار کر چکے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکے، شاید کہیں سے رکاوٹیں تھیں۔‘
گزین مری کے مطابق ’آپ جو بھی نام دیں اصل طاقت جن کے ہاتھ میں ہے ان کی طرف سے اگر کوئی ان کو گرین لائٹ ملی ہو یا اختیارات ملے ہوں پھر تو شاید کچھ ہو۔ ان کی اپنی خواہش ہے تو خواہش تو اچھی ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ کسی حد (نتیجے) تک پہنچیں کیونکہ بلوچستان، کوئی اچھا سمجھے یا برا، صدر اور وزیراعظم کے ڈومین سے بھی باہر ہے۔ جن کے ڈومین میں ہیں سب کو پتہ ہیں لیکن بول نہیں سکتے۔‘
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں مذاکرات کی کوششیں کیوں کامیاب نہیں ہو سکیں؟ اس سوال کے جواب میں گزین مری کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کے پاس اختیارات کتنے تھے؟ وہ تو ایک پیغام رساں کی حیثیت سے گئے اور کوئی وعدہ نہیں کر سکتے تھے اور اگر کوئی کمٹمنٹ کر بھی لیتے تو اس کو پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
وطن واپسی کے باوجود سیاسی عمل کا حصہ بننے میں ناکامی سے متعلق سوال پر گزین مری کا کہنا تھا کہ میری وطن واپسی سے کئی لوگوں کے مفادات کو زک پہنچ رہی تھی کیونکہ ان کی اپنی اجارہ داری تھی۔
گزین مری کا کہنا تھا کہ ’میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ مشکل وقت میں بیرون ملک بیٹھ کر آرام و آسائش سے رہوں اور پھر جب اقتدار اور کرسی کا وقت آئے تو آ کر اس کے مزے لوں۔ میں اپنے لوگوں کے دکھ درد اور غم میں شریک ہونا چاہتا تھا اس لیے واپس آیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں کوئی سمجھوتہ کر کے وطن واپس نہیں آیا اگر کسی سمجھوتے کے تحت آتا تو یقیناً پھر جیل میں نہیں رکھا جاتا اور مقدمات بھی واپس لیے جاتے۔‘
گزین مری کے بقول ’بیرون ملک موجود افراد کی وطن واپسی میں سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدان ہے۔ ہر کوئی ماضی کو دیکھ کر کوئی قدم اٹھائے گا یا فیصلہ کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’قرآن شریف کا واسطہ دے کر نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے اتارا گیا مگر اس کے بعد اس غلطی کا کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔ معافی مانگنے کی بجائے غلطیاں دوہرائی جا رہی ہیں۔ مہذب معاشرے میں اگر کسی کے بزرگوں نے بھی کوئی جرم کیا ہو یا غلطی کی ہو تو پوتے آ کر غلطی معافی مانگتے ہیں۔‘
انڈیا کی جانب سے بلوچ عسکریت پسندوں کو استعمال کرنے سے متعلق وزیراعظم کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ ’یقیناً آپ کا دشمن آپ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھائے گا۔ انڈیا، پاکستان کی اندرونی خامیوں کا فائدہ اٹھائے گا تو پاکستان بھی ہمسایہ حریف ملک کی خامیوں کو اپنے حق میں استعمال کرے گا۔‘