مقبوضہ کشمیر کی پوری آبادی محصور، کرفیو میں سختی ،ٹیلی رابطے مفلوج، راستے مسدود،کشمیریوں نے کرفیو توڑ دیا ، ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے

0 135

سری نگر/لندن بھارت جذبہ آزادی دبانے میں ناکام، کشمیریوں نے کرفیو توڑ دیا، مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بدلنے کے خلاف ہزاروں افراد کا سری نگر، صورہ اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر مارچ ،قابض فوج نے مظالم کی انتہاکردی ، سید ھا فائر کھول دیا ،فائرنگ اور شیلنگ سے متعدد زخمی ہوگئے ،مظاہرین پاکستانی پرچم بھی لہراتے رہے، جو ہے حق ہمارا آزادی ، بھارت واپس جائو، مظاہرین کے بھارتی تسلط کے خلاف اور آزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے،ہسپتالوں میں زیر علاج پیلٹ گنوں کے زخمیوں کی ویڈیو سامنے آگئی، چھرے لگنے سے نابینا ہونے والوں میں کم سن بچے بھی شامل ہیں ،مقبوضہ کشمیر کی پوری آبادی محصور، ٹیلی رابطے بھی مفلوج ہیں ، عوام کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق یندر مودی کی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے خلاف کشمیر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ جمعے کو بڑے پیمانے پر بھارت مخالف مظاہرے ہوئے۔ جمعے کی نماز کے بعد سخت ترین کرفیو کے باوجود ہزاروں افراد نے صورہ کے علاقے میں احتجاجی مارچ کیا اور بھارت مخالف نعرے بازی کی۔ جلوس کے شرکا ہم کیا چاہتے آزادی، انڈیا واپس جائو اور انڈیا کا آئین نامنظور کے نعرے لگاتے رہے۔اس جلوس میں بچے، جوان اور بوڑھے کشمیریوں کی بڑی تعداد شریک تھی اور جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔سرینگر کے قمرواری علاقے میں پولیس نے مشتعل ہجوم کا تعاقب کیا تو کچھ نوجوان دریا میں کود پڑے جس کے باعث ایک نوجوان غرقاب ہو گیا۔پولیس حکام نے بتایا ہے کہ گذشتہ پانچ روز کے دوران پرتشدد مظاہروں کے تقریبا 100 واقعات پیش آئے ہیں جن میں بیس سے زیادہ افراد چھرے اور اشک آور گیس کے گولے لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔اس سے قبل سری نگر میں غیر ملکی میڈیا نے بتایا تھا کہ سری نگر کے مختلف ہسپتالوں سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر کم از کم 52 افراد کو چھروں سے زخمی ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں میں لایا گیا ہے جن میں سے کم از کم تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔کشمیر میں نیم فوجی اہلکاروں کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ماضی میں بھی چھروں والے کارتوسوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے جس پر عالمی سطح پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ 30 برس میں سخت ترین کرفیو اور مواصلاتی مقاطعے کی وجہ سے افواہوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم گورنر ایس پی ملک نے اعلان کیا ہے کہ لوگوں کو عید منانے میں تکلیف نہیں ہو گی، کیونکہ ‘مختلف علاقوں میں غذائی اجناس کی موبائل گاڑیاں بھیجی جائے گی، سبزیوں اور گوشت کے لیے منڈیاں قائم ہوں گی جن تک لوگوں کی رسائی ممکن ہوگی۔ گزشتہ روز شہریوں کو اپنی مقامی مساجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت تو دی گئی تاہم سری نگر کی جامع مسجد کو بند رکھا گیا۔ادھر کارگل میں عوام نے لداخ کو بھارت کے زیرِانتظام علاقہ بنانے اور وہاں اسمبلی قائم نہ کرنے کے خلاف مظاہرے کیے ہیں جن کے بعد پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت کے فیصلے کے بعد سے کارگل کے علاقے میں ماحول شدید تنا کا شکار ہے اور کارگل کے لوگ مرکزی حکومت سے کافی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام اس بات پر برہم ہیں کہ کارگل کو لداخ میں شامل کیا گیا ہے اور انھیں ایک قانون ساز اسمبلی بھی نہیں دی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔ چار دن سے کارگل مکمل طور بند ہے اور لوگوں نے جمعے کو بھی احتجاجا دکانیں بند کر رکھیں۔زبیر احمد کا کہنا ہے کہ کارگل میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات ہے اور نوجوانوں کی جانب سے پولیس پر پتھرا کے واقعات کے بعد چند نوجوانوں کو پولیس نے حراست میں بھی لیا ہے۔کشمیر کے واحد زنانہ ہسپتال، لل دید میں مریضوں کے تیمارداروں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں بھی ہسپتال میں نظر بند کیا گیا ہے۔شوپیان کے بلال احمد نے بتایا کہ میں اپنی بہن کو لے کر ہسپتال کیسے پہنچا وہ میرا خدا ہی جانتا ہے، لیکن اب جب کہ خدا کے فضل سے اس کی بیٹی ہوئی ہے اور ہم یہ خوش خبری گھر والوں کو نہیں دے سکے ہیں۔ یہی حال ان لاکھوں والدین کا ہے جن کے بچے یا اقربا ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں کاروبار یا تعلیم کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ لال چوک کے ایک دکاندار عبدالمجید نے بتایا کہ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ دس لاکھ لوگ ریاست سے باہر ہیں۔ سرکاری دفتروں میں چند فون لائنز سے یہ مسئلہ حل ہو گا کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ کم از کم مواصلاتی رابطوں کا کوئی ایک ذریعہ ہی بحال کرے۔واضح رہے 30 سال میں پہلی مرتبہ کشمیر میں لینڈ لائن، وائرلیس فونز اور ہر طرح کی انٹرنیٹ سہولت معطل ہے۔ حالانکہ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن سڑکوں پر کرفیو سے بھی بدترین حالات ہیں۔اگست اور ستمبر کشمیر میں شادیوں، حج سے واپسی اور امتحانات کا سیزن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ میوہ باغات میں دواپاشی کا وقت ہے جبکہ چند ہفتوں میں شالی کی فصل کاٹنے کا وقت ہے۔عبدالمجید کاکہنا تھاکہ جس طرح کی بندشیں ہیں، ہم اس وقت صرف یہ سوچتے ہیں کہ کیا ہم حاجیوں کا استقبال کرنے، شادیوں کی تقریب میں شرکت کرنے، بچوں کو امتحانات کے لیے بھیجنے یا فصل کاٹنے کے لیے زندہ رہیں گے کیا۔واضح رہے حکومت کے احکامات پر بیس ہزار یاتری اور سیاح وادی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔درین اثنا گورنر ایس پی ملک نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کو عید منانے میں تکلیف نہیں ہوگی، کیونکہ “مختلف بستیوں میں غذائی اجناس کی موبائل وین بھیجی جائیں گی، سبزیاں اور گوشت کے لیے منڈیاں قائم ہوں گی جہاں لوگوں کی رسائی ممکن ہوگی۔ 30 سالہ تاریخ میں سخت ترین کرفیو اور مواصلاتی بلاکیڈ کی وجہ سے افواہوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے، تاہم پولیس حکام نے بتایا کہ گزشتہ پانچ روز کے دوران پرتشدد مظاہروں کی سو سے کم وارداتیں ہوئیں جن میں 20 سے زیادہ افراد چھرے اور آنسو گیس کے گولے لگنے سے زخمی ہو گئے۔سرینگر کے قمرواری علاقے میں پولیس نے مشتعل ہجوم کا تعاقب کیا تو کچھ نوجوان دریا میں کود پڑے جس کے باعث ایک نوجوان غرقاب ہو گیا۔ذرائع کے مطابق مقبوضہ کشمیر کا رابطہ گزشتہ ایک ہفتے سے پوری دنیا سے منقطع ہے ۔ نا تو وہاں کوئی انٹرنیٹ براڈ بینڈ سروس ہے اور نہ ہی کوئی لینڈ لائنز۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 8 سو سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ 50 سے زائد حریت رہنمائوں کو گرفتار کرکے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے بھارتی شہر آگرہ منتقل کردیا گیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر بار کے صدر میاں عبدالقیوم کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا نے خود ہی مودی سرکار کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرفیو کے باوجود ہزاروں افراد نے سری نگر میں احتجاجی مظاہرہ کیا اورکسی ایک شخص نے بھارت کی حمایت نہیں کی ۔ذرائع کے مطابق صورتحال کی خرابی کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ حریت بڑھتا جا رہا ہے ۔ کشمیری جیت جائیں گے اور بھارت ہار جائے گا ۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.