دیناکے اہم معاشی اجلاس پاکستان کے لئے مفیدہوسکتا ہیے؟
۔ دنیاکااہم ترین معاشی فورم اور 10ممالک کے ممبروں پرمشتمل تین ارب سے زیادہ آبادی رکھنے والاشنگھائی تعاون تنظیم کااہم نوعیت کا23واں اجلاس موجودہ دورمیں پہلی دفعہ اسلام آباد میں 16اور17اکتوبرکومنعقدہوں گے شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس دیناکے بڑے ایونٹس میں ایک ہیے جوکہ دنیاکی آبادی کا40فیصدحصہ بننے کے ساتھ اسی تنظیم میں 24ٹریلین ڈالرکی جی ڈی پی شامل ہیے اوراس تنظیم میں اپنے انسانوں کے مالی مسائل حل کرنے کاپوٹنشل بھی پایا جاتا ہیے کیونکہ۔ان ممالک میں دینا کے کل تیل کا 20فیصد اورگیس کا40فیصد حصہ بھی پایاجاتا ہیے اسلام آباد میں منعقدہونے والے اس ایک اہم معاشی اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے دوسرے اہم۔رہنماوں کے شرکت کے ساتھ پاکستان کے اہم۔ہمسائیہ۔ملک بھارت کے وزیرخارجہ سبرانیم جے شنکر کا 9سال کے بعداس اجلاس میں شرکت کرنے پر زیادہ سوالات پیداکردئیے ہیں کہ ایک ایساملک بھارت جو اپنی۔کرکٹ ٹیم پاکستان کونہیں بھجتاوہ اپنے وزیرخارجہ کو پاکستان بھجنے پراچانک کیسے رضامندہوگئے ؟ کیا بھارتی وزیرخارجہ کی شنگھائی تعاون تنظیم کے دورزہ اجلاس میں شرکت سے دونوں ممالک کی۔دوطرفہ۔تعلقات بہترہوں گے؟ اس سوال کا پہلاجواب یہ ہوسکتا ہیے کہ امکان کی۔حدتک کہ پاکستان نے امریکہ سے درخواست کی ہو اورانہوں نے بھارتی وزیرخارجہ کوکہا ہو کہ آپ پاکستان جائیں اوردوسری وجہ یہ بھی ہوسکتا ہیے کہ روسی دباوں کے ساتھ جنوبی ایشیائی ممالک سے۔سرخ جھنڈے کی وجہ سے بھارت پاکستان کی۔طرف پلٹاہیے ورنہ بھارت پاکستان کواپنا منہ بھی نہیں دیکھاتے بھارتی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان بظاہر دوطرفہ تعلقات سے زیادہ کثیرالجہتی اورسفارت کاری سے متعلق ہیے لیکن اس کے مقاصد کے حوالے سے بھارت اورپاکستان کے تعلقات کی۔اہمیت نظراندازنہیں کیا جانا چاہئے یہ فیصلہ بلاشبہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ بھارت کی وابستگی سے زیادہ پاکستان کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانے کی خواہش کااظہارکرتاہیے بھارت کے ماضی کے منفی طرزعمل کے برخلاف پاکستان مثبت روئیہ اپناتارہاہیے گزشتہ سال بھارت کے ریاست گوامیں شنگھائی۔تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ اجلاس میں پاکستان کے نوجوان سابق وزیرخارجہ۔ بلاول زرداری بھٹو نے شرکت کی تھی اگرچہ اس وقت بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے گوامیں بلاول بھٹوزردای سے باقاعدہ ملاقات تونہیں کی۔تھی لیکن بلاول کاخوداستقبال توکیاتھا اس لئے اب اگربھارتی وزیرخارجہ اسلام آباد آئے گے اگرچہ اسحاق ڈارکی ان سے باقاعدہ تفیصلی ملاقات نہ ہو لیکن اسحاق ڈاران کاخوداستقبال کریں گے توپھر آخر کیا وجہ ہیے کہ۔بھارت کے وزیرخارجہ اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے اس بارے میں اس حقیقت کونظراندازنہیں کرنا چاہئے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تحمکانہ روئیوں کانتیجہ بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی کی۔شکل میں سامنے نظر آیا ہیے چین اور پاکستان کے ساتھ ہی انہیں سری لنکا نیپال اورمالدیپ کے بعدبنگلہ۔دیش سے بھی بھارت کے تعلقات ان دنوں سخت کشیدگی کاشکارہیں اوربنگلہ دیشی عوام نے بھارت کے تسلط کے خلاف عملا” بغاوت کرکے اس حکومت کاخاتمہ۔کردیا ہیے جومودی سرکارکاکھٹ پتلی بن چکی تھی بنگلہ۔دیش میں حکومت کی۔تبدیلی کے بعدپاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں نہایت خوش آئند تبدیلی آئی۔اورتوقع ہیے کہ بہت جلد دونوں ملکوں میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم تعاون کاآغازہوگا لیکن بھارتی وزیرخارجہ اسلام آباد آنے سے پہلے یہ بیان داغ کرامن خواہاں حلقوں کواپنی ضدی پالیسی ظاہرکردی اورمیڈیا پرروائتی موقف کرکے۔دراصل خطے میں پاکستان کی۔اہمیت کونظراندازکررہیے ہیں اگرچہ ان کے اس بیان سے پاکستان میں۔بھارت کے ساتھ مذاکرات کی حامی قوتوں کومایوسی ہوتی ہوگی جومسلم نوازکی۔حکومت میں کسی بڑے بریک تھرو کے امکانات تلاش کررہیے تھے لیکن وہ فراموش کرگئے ہوئے ہیں کہ بھارتی۔ھٹ دھرمی نے تنازع کشمیرکے متعلق سنگینی پیداکردی ہیے کل۔جماعتی حریت پسندکے سربراہ میرواعظ عمرفاروق کے مطابق بھارت اورپاکستان کے پاس شنگھائی۔تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں برف توڑنے اورتعمیری طورپربات چیت کاایک حقیقی موقوع ہیے اگرچہ بھارت نے ہرسطح پرپاکستان سے رابطے اوربات چیت کا امکان بندکررکھا ہیے مگرشنگھائی۔تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران موقع ہوتاہیے کہ دونوں ممالک کے حکام ایک۔دوسرے کے ساتھ بات کرلیں گزشتہ دنوں بھارت اورپاکستان نے unoکے جنرل اسمبلی اجلاس میں دونوں ملکوں کے وزیراعظم کی۔ملاقات میں سارک بحالی پربات ہوئی۔ہیے سارک تنظیم اس وقت قائم۔کی گئی جب مغرب علاقائی اقتصادیات کوبلاک کی شکل میں لانے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی تواس وقت خطے کے ممالک کوتجارتی وثقافتی طورپرایک۔دوسرے کے قریب لانے کیلئے سارک تنظیم بنائی گئی اس تنظیم کے اغراض ومقاصدکوپیش نظررکھ کرآگے بڑھایاجاتا تواس وقت پاک بھارت کے سیاسی ودفاعی اختلافات ختم ہوچکے ہوتے بھارت کوجیسے ہی علاقائی طاقت بننے کاجنون چڑھا سارک تنظیم غیرموثرہونے لگی جنوبی ایشیائی ہمسائیوں کے درمیان تنازعات نے خطے کی۔کثیرالجہتی تنظیموں کوموثرطریقے سے معذورکردیا ہیے جیسے کہ جنوبی ایشیائی۔تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک)ایک علاقائی۔گروپ جس کے رہنماوں نے ایک دہائی۔میں۔کوئی اجلاس نہیں کیا اب مبصرین اس اندیشوں کاشکارہیں کہ۔کیا اس وقت sco کوتونقصان پہنچ سکتاہیے جس کی بنیادروس اورچین نے رکھی ہیے اس کی قیادت چینی صدرزی جن پنگ اورروسی صدرولادیمرپوٹن کے پاس ہیے سارک کی نظیرsco کے متعلق تشویش پیداکرتی ہیے یہ تناوممکنہ۔طورپر تنظیم کومتاثرکرسکتاہیے تاھم چین اوراس جیسی عالمی طاقتوں کی قیادت میں sco کی مضبوط ایک مختلف صورتحال پیش کرسکتی ہیے شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اہم اجلاس کے انعقادکے بارے میں دواہم سوالات خطے میں کئے جارہیے ہیں کہ خطے کے دوپڑوسی ممالک بھارت اورپاکستان کے درمیان گزشتہ پانچ برس سے تعلقات میں تناواورکینچھاوکا ایک وجہ یہ چلاآرہاہیے یہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان بنیادی تنازع کشمیرہیے جواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہمالیہ کاایک متنازعہ علاقہ ہیے دونوں ممالک نےاسی کشمیرپرمتعددجنگیں لڑچکے ہیں دوسراوجہ تعلقات خراب ہونے کے یہ ہیے کہ جب اگست 2019میں نرنندرمودی کی انتہاپسندہندوقوم پرست حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کومنسوخ کردیا اگرچہ اس شق نے کشمیرکوجزوی خودمختاری دے رکھی تھی مگربھارت کے اس اقدام پرپاکستان نے شدیداحتجاج کیا اوردونوں ممالک کے درمیان سفارتی بول چال بھی بندہونے کے ساتھ پاکستان نے دوطرفہ بات چیت کے لئے پیشگی شرط رکھ دی اوریہ۔کہا کہ۔جب تک بھارت یہ ترمیم واپس نہیں لیتا اس سے بات نہیں ہوگی؟کیاشنگھائی تعاون تنظیم ان دوممالک کے درمیان بندکی گئی سفارتی بول چال۔دوبارہ بحال کریں گے ؟ تاکہ بندکھڑکیاں اوردروازے کچھ نہ کچھ کھل ہی جائیں اوران دونوں ممالک کے عوام۔بھی چاہتے ہیں کہ دوپڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات ملکی مفادمیں توہیے لیکن ملک چلانے والوں کی۔مفادمیں نہیں لیکن پھربھی پاکستان اوربھارت کے اچھے تعلقات ہوں پوری۔دنیا گلوبلائزہوچکی ہیے۔جب تک آپ کے ہمسائیوں کے ساتھ اچھےتعلقات نہیں ہوں گے آپ سکھ اورچین سے نہیں رہ سکتے یہ اس لئے کہ ہمیں دنیاکے حالات کودیکھتے ہوئے آپس میں دشمنی کرنے کے۔بجائے غربت اورافلاس کے خلاف لڑنا چاہیے 76سال میں۔دشمنی کرکے کوئی۔نتیجہ۔حاصل نہیں کیا سوائے۔تنزلی کے جوفائدے دونوں پڑوسیوں کودوستی میں ملے۔گے وہ دشمنی میں نہیں ملے۔گے دونوں کی۔بہتری اسی میں ہیے کہ آپس میں۔تجارت شروع کی جائے تاکہ دونوں ممالک کے۔غریب عوام کوآلو پیازٹماٹرسستے تو مل۔سکے ان دونوں ممالک کے۔دشمنی سے غریب عوام کا کیاتعلق ہوسکتا ہیے اگرتعلقات بہترہوگئے تودونوں ممالک کے۔عوام کافائدہ ہوگا لیکن یہ فائدہ حکومت اورفیصلہ۔سازوں کا۔نہیں جبکہ خودیہ اچھے تعلقات پاکستان کے حق میں بھی ہیے کیونکہ ایک۔طرف سے پاکستان اپنے آپ کوایک امن پسندملک کہتا آیا ہیے اورانہوں نے ہمیشہ اختلافات کوبات چیت سے طے کرنے کی حمایت کی ہیے اب اگربھارت پاکستان سے بات چیت کرنے کے خواہش مندنہیں تواس کی یہ۔سوچ شنگھائی تنظیم کے مقاصدسے مطابقت نہیں رکھتی اوریہ۔تنظیم کی استعدادپاکستان بھارت کوترقی اورپرامن اندازمیں اپنے اختلافات ختم کرنے کوموقع دیتے ہیں اسی طرح یہ تنظیم بھارت کووسطی ایشیا میں اپنی سٹراٹیجک رسائی کومذیدگہراکرنے کی۔سہولت دیتی ہے بھارت کے پاس پہلے ہی وسطی ایشیا میں سوفٹ پاورکافی صلاحیت موجودہیے اورشنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت وسطی ایشیاء ممالک کے معدنی اورتوانائی کےوسائل تک رسائی فراہم کرنے کی سلامتی کوفروغ دے سکتی ہیے خطے کے ان دوپڑوسی ممالک بھارت اورپاکستان 9جون 2017 شنگھائی تعاون تنظیم sco کے مکمل رکن بن گئے اوران۔دونوں ممالک کی رکنیت کااعلان قازقستان کے صدرنورسلطان نذربایوف نے کیا اورانہوں دونوں ممالک کو تنظیم میں نئے رکن کے طورپرخوش آمدیدبھی کہا دوسرااہم سوال یہ کیاجارہاہیے کہ اس خطے کے اسلامی ملک ایران جوکہ قدرتی تیل اورگیس سے مالامال ہیے اس ملک سے پاکستان کوسستے تیل اورگیس سے مستفیدکیوں نہیں ہونے۔دیاجارہا؟اورکون اس میں کھلی رکاوٹ بناہوا ہیے ؟ حالانکہ۔ایران سے پاکستان کی سرحدتک گیس پہنچانے کیلئے پائپ لائن بچھائی گئی ہیے جس پراربوں ڈالرلاگت آئی ہیے کیا شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے اس اہم ملک کے گیس اورتیل سے پاکستان کومستفیدہونے کے لئے اپنااہم۔کرداراداکریں گے ؟شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک سرکردہ ملک چین کی جانب سے پاکستان میں اربوں ڈالرکی لاگت سےسی پیک بنائے جارہا ہیے لیکن پی ٹی آئی کی دورحکومت میں تین سال بندکردیا گیا تھا کیا اس فورم کے ساتھ کوئی۔قوت ہیے کہ۔پاکستان میں سی پیک کو جلدی۔مکمل کرسکے کیونکہ دنیا کی۔ایک سپرپاورملک امریکہ اورمغربی ممالک کی یہ۔پوری کوشش ہیں کہ پاکستان سی پیک سے مکمل۔طورپراستفادہ حاصل نہ۔کرسکے