جمال شاہ کاکڑ بطور وفاقی وزیر بلوچستان کے کارکنوں اور پارٹی کیلئے کیو ں ضروری ہیں ؟

0 297

جمال شاہ کاکڑ صاحب نے جب پہلے بطور مسلم ن بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکریٹری کے تنظیمی عہدہ سنبھالا تو بے جان اور غیر منظم تنظیم کو سنمبھالنا ایک مشکل کام تھا لیکن دوسری طرف سابق صوبائی صدر جنرل ریٹائرڈ عبد القادر بلوچ صاحب کا ساتھ بھی تھا جس نے بطور تنظیمی ورکر کے باصلاحیت ھونے کے بنا پر سب کچھ کا اعتماد کرتے ھوئے جمال شاہ کاکڑ کو مکمل باختیارکرتے ھوئے تمام تنظیمی امور ان کے سپرد کئیے تو پہلی دفعہ جماعت کے ادارے بنا شروع ہوگئے صوبائی ضلعی اور تحصیل سطح اور ونگز کی تنظیم سازی ھونے لگی اور کارکنوں کو منظم کرنے کا عمل شروع ھوا ایک طرف غیر منظم تنظیم کو منظم کرنے کا ٹاسک اور دوسری طرف عمران کے نااہل حکمرانی کے خلاف جدوجہد کا عملی کام تو ایسے میں کمال مہارت سے جمال شاہ کاکڑ نے کارکنوں کا اعتماد جیتتے ھوئے ایک طرف تنظیم سازی مکمل کی اور دوسری طرف تنظیم کو عملی میدان میں اتار کر جدوجہد کا حصہ بنانا شروع کر دیا جسمیں کافی کامیابی ملنا شروع ھونا شروع ھوگیا اس میں جمال شاہ کاکڑ کا روزانہ کے بنیاد پر عام کارکن سے لیکر صوبائی عہدے داروں اور بلوچستان کے طول و عرض میں واقع اضلاع کے صدور سے رابطے اور رپورٹ لینا شروع کردیا صبح 11بجے سے آفس آنا اور شام گئے تک یہ کام جاری رکھتے اس سے یہ ھوتا گیا کہ کام والے لوگ رھتے گئے اور جو حلیوں بہانوں سے کام لیتے وہ پلیٹ فارم چھوڑتے گئے جمال شاہ کاکڑ کے اس عمل سے کارکن کندن بنتے گئے اور جب ان کو صوبائی قیادت کی ان کی پہنچ میں ھونے کا احساس ھونے لگا تو مشکلیں اور آسان ھونے لگے اسیے میں کچھ معمالات پر صوبائی صدر جنرل ریٹائرڈ عبد القادر بلوچ صاحب چیف آف جھالاوان سردار ثنا اللہ زہری نے استفعی اپنے درجنوں ساتھیوں کے ساتھ استفعی دے دیا اور پارٹی کو بلوچستان میں ختم کروانے کا عندیہ دے دیا تو ایسے میں سب کی نظریں جمال شاہ کاکڑ پر آن رکھی کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ھے اور کیا وہ ٹھہرتے ھے یا بھی میدان چھوڑتے ھے تو ایسے میں جمال شاہ کاکڑ صاحب نے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ھوئے ساری تنظیمی زمہ داری اپنے کندھوں پر سنمبھالتے ھوئے آگے آئے ایک طرف اسٹبلشمنٹ اور دوسری طرف سردار نواب کا چیلنج کہ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنا ھے تو ایسے میں جب سرادر ثنا اللہ زہری ایک طرف کویٹہ کے میونسپلٹی میں سینکڑوں قبائلییاں کے حصار میں پاکستان مسلم لیگ ن سے استعفی دے رھے تھے تو دوسری طرف 500 فٹ کے فاصلے پر واقع کویٹہ پریس کلب میں جمال شاہ کاکڑ اپنے کچھ بچے کچھے ساتھیوں کے ساتھ مردانہ وار پارٹی کے حق میں پریس کانفرنس کررھے تھے اور کارکنوں اور پریس والوں کو حوصلہ اور آئیندہ کا لائحہ عمل بتا رھے تھے بس پھر کیا تھا کہ محنت اس سے بھی زیادہ ھونے لگی نہ دن دیکھا گیا نہ رات جمال شاہ کاکڑ میدان عمل میں جان پیشانی کے ساتھ مزید محنت کرنے لگے اور اس دوران مرکز کی جانب سے مہنگائی کے خلاف اضلاع اور ڈویژن میں ریلیاں نکالنے کا سرکلر جاری ھوا بلوچستان چونکہ پاکستان کا آدھا ھے اور اضلاع بھی دور دور ھے اور دوسری طرف مزاحمت کرنے والی قوتوں کے چیلنج کا سامان لیکن جمال شاہ کاکڑ نے ان تمام اضلاع میں خود جاکر اپنے اضلاع کے صدور کا حوصلہ بلند کیا اور خود ان ریلیوں میں شرکت کرنے لگے اور اسی طرح اس کے بعد ڈویژنل سطح پر کنونشن کا اعلان ھوتا ھے تو بلوچستان کے تمام ڈویژنوں میں ورکرز کنونشن منعقد ھوتے ھے اور موصوف خود ان کانفرنسوں میں شرکت کرتے ھے اسطرح کارکنوں کا نہ صرف اعتماد جیتا بلکہ ان سے بھائیوں والا رشتہ جوڑا کارکن اور عہدے دار جمال شاہ کاکڑ سے محبت کرنے لگے ان کے چھوٹے بڑے تمام مسائل پر ان کے ساتھ کھڑے ھوتے اور ان کے دوکھ اور خوشی میں شریک رھتے ایسے میں آگے عام انتخابات کا بگل بجنے ولا تھا اور ان کو فکر بھی تھا اور وہ لوگوں سے رابطے میں بھی تھے اور اسطرح انھیں امید بھی تھی کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ھونگے لیکن اچانک راتوں رات ایک فیصلہ ھوتا ھے اور ان کو صوبائی صدارت سے ہٹایا جاتا ھے اور یہ خبر کارکنوں پر بجلی کی طرح گرتی ھے اور کارکن اس اچانک کے فیصلے سے نہ صرف ناخوش ھوتے ھے بلکہ سکتے میں آجاتے ھے اور ان کے دماغوں میں طرح طرح کے خیالات اور جذبات جنم لینے لگتے ھے اور وہ اس پریشانی کے عالم میں جمال شاہ کاکڑ صاحب کو فونز کرنے لگتے ھے کارکنوں اور عہدیداروں کے خیالات اور جمال شاہ کاکڑ صاحب کے خیالات میں بہت بڑا فرق آجاتا ھے جب کارکن ریکشن کا کہتے ھے تو جمال شاہ کاکڑ صاحب کارکنوں کو تسلی دیتے اور کہتے کہ قائد کا جو فیصلہ وہ سر آنکھوں پر اور کارکنوں کو کسی بھی ریکشن سے منع کیا
تو آج یہ پورے مسلم لیگ ن پاکستان میں ھو لیکن بلوچستان میں تو پہلی بار ایسا ھوا ھے کہ ایک صوبائی صدر کو بلوچستان کے اضلاع سے آئے ہوئے ضلعی صدور اور صوبائی عہدیدار صوبائی صدارت کے شاندار کارکردگی پر انھیں ان کی زندگی میں ھی شاندار الوداعی تقریب دے رھے اور ان سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کررھے ھےلیکن پھر بعد میں ایک مرتبہ پھر صوبائی صدر شیخ حاجی جعفر خان مندوخیل کے شانہ بشانہ تنظیمی معاملات کو سمھبالتے ھوئے پارٹی کو بلند وبالا مقام تک لے گئے اور آج صورتحال یہ ھے کہ صوبائی صدر شیخ حاجی جعفر خان مندوخیل اور جنرل سیکریٹری کے پارٹی بلوچستان میں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن گہئ لیکن بد قسمتی سے ہمارے صوبائی صدر کو ژوب میں بدترین دھاندلی کی وجہ سے ہرایا گیا جہاں ہمیں صوبائی صدر شیخ حاجی جعفر خان صاحب کے سیٹ کا دکھ تھا وہاں کوئیٹہ میں صوبائی جنرل سیکریٹری جمال شاہ کاکڑ صاحب کی جیت نے ہمارے دکھ کو کم کیا اور صوبائی سطح پر پب بی 42 پر زرک مندوخیل کی جیت ھوئی جس سے صوبائی دارالحکومت میں کارکنوں کی خوشی دوبالا ھوئی
اب مدعا یہ ھے کہ پارٹی قائد میاں محمد نواز شریف سے پارٹی مرکزی صدر وزیراعظم شہباز شریف سے بلوچستان کے کارکنوں کی اپیل ھے کہ پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور حال حاضر میں بلوچستان کے طول و عرض میں رھنے والے کارکنوں کے ہردلعزیز رہنما جمال شاہ کاکڑ کو وفاق میں اہم وزرات دی جائی کیونکہ موصوف بلوچستان میں پارٹی کارکنوں کا چہرہ ھے موصوف نہ صرف کوئیٹہ NA263 کے منتخب ایم این اے ھے بلکہ پورے بلوچستان کے کارکنوں کے مسیحا ھے ان کو وزرات ملنے سے گوادر سے لیکر چمن حب سے لیکر ژوب تک کے کارکنوں کی امیدیں ھے بلوچستان کے ہر کارکن کی دلی خواہش ھے کہ جمال شاہ کاکڑ کو وفاق میں اہم وزرات دی جائے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.