بلوچستان میں سیاست آزاد ہونے کی باتیں درست نہیں،اسرار زہری
بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے قائد سابق وفاقی وزیر میر اسراراللہ خان زہری نے کہاہے کہ بلوچستان کی جو سیاست ہے اس میں اب سنجیدگی بہت کم نظر آتی ہے سیاسی روایات ختم ہوگئے ہیں اس صورتحال میں کچھ نہیں معلوم کہ بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست کس سمت جارہی ہے ، اور یہ صورتحال کونسا رخ اختیار کرسکتی ہے میں نے انفرادی طور پر بہت کوشش کی کہ قوم پرست سیاسی جماعتوں کو یکجا کرسکوں اس سلسلے میں فرداًفرداً قیادت سے ملا لیکن ابھی تک مجھے کوئی مثبت پیغام نہیں آیا ، میں سمجھتا ہوں کہ لیڈر شپ میں ابھی تک کینہ پروری اناء پرستی قائم ہے انہی کوشش کی وجہ سے تو میری پارٹی کو کافی نقصان پہنچا میرے ساتھی مجھ سے علحیدہ ہوگئے بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کا اکٹھا کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن پھر بھی کوشش کریں گے جتنے بھی سربراہان ہیں پارٹیوں کے اس نقطے پر ان کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن وجہ معلوم نہیں ہے کہ کون ان کے اس پیش رفت کے آگے رکاوٹ ہے ان خیالات کا اظہارا نہوں نے گزشتہ روز اپنی رہائشگاہ پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت اور ان کے سوالات کا جوابات دیتے ہوئے کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سیاست اتنا آزاد نہیں ہے کہ یہاں سیاسی قیادت کھل کر سیاسی کاز کو آگے بڑھا سکے جہاں جمہوریت ہوتی ہے وہاں سیاست بھی ہوتی ہے ہمارے ہاں جمہوریت برائے نام ہے یہاں سیٹوں کی خاطر جمہوریت کا نام لیاجا تاہے سیاستدانوں کا اب فعال کردار نہیں رہا جو سیاستدان ہیں و ہ بزرگ ہوتے جارہے ہیں اور موجودہ وقت میں نوجوان بھی سیاست کو وقتی طور پر ٹائم دے رہے ہیں آپ نے بلدیاتی الیکشن میں دیکھا کہ بلوچستان میں کیا کچھ نہیں ہوا ،یہی وجہ ہے کہ یہاں شفاف سیاست نہیں ہے پاکستان میں نہیں اور بلوچستان میں تو بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہماری حکمت عملی یہی ہے کہ سیاست کو ایک کامیاب نھج تک پہنچائیں آنے والی نسلو کو ایک ایسا پیغام دیں کہ جو سیاست کے طریقہ کار کو سمجھیں اس کے لئے ہماری کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب سے ہماری اتنی ہی مخالفت بڑھتی جارہی ہے اللہ جانے کہ آگے جا کر کیا ہوگا ۔ میراسراراللہ خان زہری کا کہنا تھاکہ ہماری سیاست کا محور قوم پرستانہ سیاست کی جانب ہے ابھی دھیرے دھیر قوم پرستانہ سیاست کمزور ہوتی جارہی ہے تاہم ہم پرامید ہیں کہ آنے والی نسل اس کوسنبھال لے گی جس طرح خیبر پختونخواہ میں قوم پرستانہ سیاست کمزور ہونے لگی تو نوجوانوں نے اس کی جگہ لے لی اور اب وہ بہتر انداز میں سیاست کررہے ہیں ۔ اور بلوچستان میں موجودہ قوم پرست لیڈرز اگر قوم پرستانہ سیاست کو صحیح انداز میں سنھبال نہ سکے تو آنے والے مستقبل میں نوجوان اس کو بہتر انداز میں سنبھال سکیں گے ۔ ایک سوال کے جواب ان کا کہنا تھاکہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی ایک سیاسی جماعت ہے آنے والے الیکشن میں پارٹی مفادات کو دیکھ کر فیصلہ کرلیں گے اگر دیگر جماعتوں سے اتحاد کرنا ہوا تو کرلیں گے ورنہ اپنی پارٹی پوزیشن پر الیکشن لڑیں گے کہیں سے جیتیں گے کہیں سے ہار یں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ پیپلز پارٹی میں انفرادی لوگ شامل ہورہے ہیں تاہم کوئی توانا سیاسی جماعت کو نہیں دیکھا کہ اس کی پیپلزپارٹی کی جانب جھکائو ہو یہ عمل ہمیں خضدار اور قلات میں نظر آرہاہے بلوچستان کے دیگر حصوں میں کم ہے سوشل میڈیا میں ایک رجحان بنا ہوا ہے اور باتیں زیادہ پیپلز پارٹی کے حوالے سے چل رہی ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو آٹھ دس سیٹیں بلوچستان میں ہمدردی کے طور پر ملیں تاہم 1971ء کے بعد سے بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم رہی ہے اب شاید کوئی رجحان بنے اور پیپلز پارٹی کو کچھ سیٹیں مل جائیں لیکن سیاست میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا پہلے یہ لوگ مسلم لیگ (ن)مسلم لیگ (ق)اور بلوچستان عوامی پارٹی میں نظر آئے اب پیپلز پارٹی میں جارہے ہیں ۔ تاہم جو پولیٹیکل لیڈر شپ ہیں وہ اپنی جگہ قائم اور سیاست کررہے ہیں ۔