مقاصد پاکستان کیا تھے؟۔۔

1 352

انقلابات زمانہ میں بیسویں صدی میں دنیا کے نقشے پر بڑی اور واضح تبدیلیاں نظر آئیں بہت سی قوموں کو آزادی نصیب ہوئی پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے لیکن پاکستان کی بنیاد بالکل منفرد اور جدا گانہ تھی کیونکہ یہ وہ واحد ملک ہے جو ایک مضبوط آفاقی نظریے کے تحت وجود میں آیا اور اس نظریے کی اساس دین اسلام ہے۔اقبال نے مسلم امت کی اساس کے حوالے سے حقیقی تصور اپنے خصوصی لیکچرز میں دیا گیا ہے جس کی جھلک اشعار میں پیش نظر رہتا ہے:اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کرخاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی قائد اعظم نے مقاصد پاکستان کی وضاحت کئی عوامی جلسوں کے دوران اور تخلیق پاکستان کے بعد مختلف مواقع پر انتہائی واضح انداز میں کی ایک موقع پر آپ نے کہاہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے عوام اس تجربے کے لئے منتظر ہی رہے کیونکہ وہ بنیادی تصورات اور سیاسی میکنزم تشکیل دینے میں کامیابیاں بطور ریاست و معاشرہ حاصل نہیں کرسکے_مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہہمیں بنگالی،پنجابی،سندھی،بلوچی اور پٹھان کے جھگڑوں سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔اب ہمارا فرض ہے کہ پاکستانی بن کر زندگی گزاریں۔لیکن اپنی نسلی قومیتی شناخت و معرفت سے اوپر اٹھنے کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقائ و سماجی شعور اور انصاف و ترقی کی نقشہ گری مطلوب ہیں وہ ابھی تک ریاست و قیادت کے سطح پر واضح فریم ورک میں دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث معاشرتی ترقی و خوشحالی اور فرائض و اختیارات میں توازن و اعتدال ناپید ہو چکا ہیں،یکم جولائی 1948 کو قائد نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایامغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ناقابل حل مسائل پیدا کئے ہیں اور یہ لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنے میں ناکام رہا ہے ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا چاہیے جو اسلام کے صحیح تصور مساوات اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہو۔ اب تک حالت زار یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں چیلنج کے ساتھ موجود ہے حالانکہ سود و دانش مندی کی کمی نے مجموعی طور پر قومی و ملی آرزوو¿ں اور تمناو¿ں کا خون کیا ہوا ہے سود کے مفاسد کے باعث معاشرتی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی غارت گری کا نشانہ بن گئے ہیں غربت و پسماندگی اور وسائل و توانائی میں تقسیم در تقسیم نے نسلوں کے لئے نئے زاویے سے درپدری اور بد انتظامی ہمارے سروں پر مسلط کی ہیں یہ وہ چند اقتباسات ہیں جو قائد اعظم کے مطابق حصول پاکستان کی جدوجہد اور تخلیق کا مو¿جب بنے اور آج کے پاکستانی کو اپنے آباو¿اجداد کی قربانیوں کی وجوہات سے متعارف بھی کرواتے ہیں۔خدانے اس قیادت کو خاص طور پر جہد پاکستان کے لئے پروان چڑھایا اور ان قائدین کو وہ نظر عطا کی جو ملک میں سیاسی ابتری،فرقہ واریت اور کمزور معاشی نظام سے پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگا چکی تھی۔48میں کیے جانے والے ڈھاکہ کے خطاب نے71میں اپنی اہمیت کو واضح کر دیا۔۔75سالوں میں صرف ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرسکی سیاسی و معاشی ابتری کی اس سے کھلی مثال نہیں مل سکتی آئی ایم ایف کا چنگل ہماری معاشی کمزور حکمر عملیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہمارے ملک میں تمام حکومتیں کسی نہ کسی انداز میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کرتی رہی ہیں کبھی قرار داد مقاصد کی صورت میں تو کبھی دساتیر پاکستان کی تخلیق کی صورت میں اور کبھی آئین میں ترامیم کی شکل میں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا ہے تو کیا ہم ان کے حصول میں کامیاب رہے ہیں؟کیا ہم اپنی تہذیب کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال سکےہیں؟کیا ہم اپنے مذہبی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ؟کیا ہم اپنے تعلیمی،معاشرتی ،معاشی،سیاسی،دفاعی مقاصد کو مستقل بنیادوں پر کوئی شکل دینے میں کامیاب ہو سکے ہیں ؟کچھ سوالات کے جوابات ملکر تلاش کرتے ہیں جیسے کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام وہ لوگ پیدا کر رہا ہے جو ملک کو خود کفالت کی طرف لے جا سکیں؟تو یقینا یہ سوال ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری کوئی تعلیمی پالیسی ہے ہی نہیں جو مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کی اہل ہو نہ ہم ٹیکنالوجی کی دوڑ میں شامل ہیں نہ ہی اس حوالے سے ہمارےنظام میں کوئی اصلاحات اور توجہ دکھائی دے رہی ہے.سن اڑتالیس سے شروع ہونے والی تعلیمی پالیسی اکہتر میں مشرقی بازو کو الگ کرنےکا باعث ثابت ہوئی مقاصد کے حصول کے لئے تعلیمی پالیسی تشکیل دے کر اسے لمبے عرصے تک لاگو رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے پھر جا کر کامیابی کا دعوہ کیا جا سکتا ہے یا اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔۔معاشرتی سطح پر لوگوں کے مسائل کے حوالے سے جن بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کی بات قرار داد مقاصد میں کی گئی وہ بھی کوئی خاص شکل اختیار نہ کر پائی قیادت
باہمی چپقلش کی زد میں رہی اورعوام کے حالات ابتر۔وبائیں ہوں موسمی آفات ہوں یا سیاسی منظر نامہ عوام کشمکش کا شکار ہو جاتی ہیں، کس پر اعتبار کرے اور کس پر نہ کرے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے تک پلانے کے بارے میں لوگ شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔کرونا ویکسین کے حوالے سے بھی ابہام موجود رہا۔سیلاب زدگان ہر سال نقصانات کا شکار ہوتے
ہیں لیکن تاحال اقدامات نہیں کئے جا سکے جن سے آئندہ کے لئے نقصان سےبچا جا سکے۔معاشی سطح پر گھر چکے ہیں آئی ایم ایف کی مدد کےبنا چارہ نہیں ہے اور اپنا معاشی نظام سود در سود میں جکڑا ہوا ہے۔دفاعی مقاصد جو ہماری مجبوری ہیں اللہ کے کرم سے ہم ایک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں اسلامی پہلو سے دشمن کے مقابلے کی تیاری کا جو درس ہمیں دیا گیا ہے اس پرالحمد للہ پورا اتر چکے ہیں اور عالمی سطح پر ایک خاص اہمیت کے حامل ملک کی صف میں شامل ہیں لیکن معاشی سطح پر محتاج ہو کر ہم اپنے دفاعی مقاصد بھی نہیں حاصل کر سکتے۔آج ضرورت ہے کے تمام طبقات عمل و فکر ملکر بیٹھیں اور پچھتر سالہ تاریخ کو دیکھیں اور سمجھیں پھر ایسا لائحہ عمل طے کریں جسے بدلنے والی حکومتوں کی بجائے ایک مظبوط اسٹیبلشمنٹ چلائے تاکہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہ سکے اور ملک کے طویل عرصہ مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔تو بنیادی سوال اب بھی یہی ہے کہ ”مقاصد پاکستان کے ادھورے سفر کی تکمیل کیسے ممکن ہیں ،،،”قآداعظم محمد علی جناح نے تو فر مایا“کہ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا“برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے پاکستان کا خواب تو اسی دن دیکھنا شروع کر دیا تھا جب جنگ آزادی کے بعد ان پر عرصہ حیات کے تنگ کر دیا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد سر سید احمد خان نے رکھی تھی۔جو عالم، مفکر اور فلسفی تھے مگر مسلمانوں کو سمت کا تعین کرنے اور جدوجھد آزادی کے لئے متحد ہونے میں پورا سو سال کا عرصہ لگا۔جب قومیں عمل و عزم کی دولت سے خالی ہو جآیں اور اپنے کوتاہیوں کو سدھارنے کی بجآ اس کا جرم دوسروں کے کھاتے میں ڈالتی ہیں تو منزل کی جانب سفر اور بھی مشکل اور سسست ہو جاتا ہے۔تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کا سفر ایک بہت ہی کھٹن اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ جو یقینی طور پر قومی آزادی کے تمام تحریکوں میں پیش نظر رکھا جاتا ہے مگر اپنے لئے ایک اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں آزادی کے خواب کی تکمیل سے ابھی تک چمک نہیں رہی ہیں۔جیسے جیسے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا انکا عزم اور بھی جوان ہوتا گیا۔انکے سامنے اپنی ثقافت کی پہچان، اپنی مذہب کی حفاظت ،اپنے زبان وادب کی بقا،قومی تشخص اپنا قومی ورثہ اور اپنا نظام تعلیم ایسی چیزیں تھیں جن کی حفاظت کے لئے برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ ہندو راج پاٹ سے آزادی بھی ضروری تھی۔قیام پاکستان کےفورا بعد مہاجرین کی آبا د کاری کا مسلہ اتنا بڑا تھا کہ آین(باقی صفحہ2نمبر1)

You might also like
1 Comment
  1. […] پاکستان میں کرونا سے مزید اموات […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.