واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں، ڈونلڈ لو

0 238

واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں، ڈونلڈ لو

اسلام آباد (ویب ڈیسک)امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس مسئلے کا حل اسی صورت میں ممکن ہے جب بیرونی مداخلت کے بغیر انڈیا اور پاکستان براہِ راست مذاکرات کریں۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ میں جنوب اور وسط ایشیائی امور کے ذمہ دار سینیئر اہلکار ڈونلڈ لو نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی رد و بدل نہیں،بھارت

 

اور پاکستان کے درمیان براہِ راست مذاکرات سے ہی اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ لو نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ڈونلڈ بلوم پاکستان کے کشمیر کے علاقے میں گئے مگر یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ گذشتہ برسوں میں ہمارے کئی سفیر کئی علاقوں میں جاتے رہے ہیں۔ اسی طرح سفیر انڈیا کے کشمیر کے علاقوں کا بھی دورہ کرتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ کشمیر کے خطے میں پ±رتشدد کارروائیاں کم ہو رہی ہیں اور ہنگامی صورتحال یا کشیدگی میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن اسے ہلکا نہیں لینا

 

چاہیے۔انھوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں مقامی الیکشن اور سیاسی حقوق بحال کیے جانے چاہییں۔ یہ یقینی بنایا جانا چاہیے کہ میڈیا کشمیر میں اپنا کام جاری رکھ سکے۔ کشمیر میں امن کے لیے یہ سب ضروری ہے۔ مجھے امید ہے آئندہ برسوں میں یہ امن یقینی بنایا جاسکے گا۔امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 جنگی طیاروں کی فروخت سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ انڈیا کو لگتا ہے کہ

 

پاکستان کے لیے کسی فوجی امداد کا مقصد اسے انڈیا کے خلاف استعمال کرنا ہوتا ہے۔پاکستان سے ایف 16 طیاروں کی ڈیل کو انڈیا کے لیے پیغام نہ سمجھا جائے، ڈونلڈ لو نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ (ایف 16 طیاروں کا) یہ منصوبہ فوجی امداد نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے فوجی ساز و سامان کی فروخت ہے۔ پاکستان کے لیے امریکی معاونت ایف 16 فائٹر جیٹس کے حوالے سے ہے اور نہ کہ کسی

 

نئی طیارے، ہتھیار اور عسکری تجویز کے حوالے سے بھی امریکہ کسی ملک کو فوجی سامان فروخت کرتا ہے تو وہ اس کی تکنیکی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت جانے کے بعد امریکہ نے پاکستان کے لیے فوجی امداد بحال کی تھی۔ عمران خان نے امریکہ اور خاص طور پر ڈونلڈ لو پر ان کی حکومت گرانے کا الزام لگایا تھا۔اس سے متعلق جب ڈونلڈ لو سے سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے حوالے سے کوئی سوال نہیں لیں گے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.