کانسٹیبل نے 2 لاکھ لےکر خودکش بمبار کی سہولت کاری کی،آئی جی خیبرپختونخوا

0 27

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 30 جنوری (2023) کو پولیس لائن پر خود کش حملے کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا۔آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان نے کہا ہے کہ دو سال قبل پشاور پولیس لائنز خودکش دھماکے کی تفتیش میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، فتنہ الخوارج کی کالعدم ذیلی تنظیم جماعت الاحرار دھماکے میں ملوث نکلی، سہولت کار پولیس کانسٹیبل محمدولی عمر کو گرفتار کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق گرفتار ہونے والے ملزم کا نام محمد ولی ہے جو خیبر پختون خوا پولیس میں کانسٹیبل اور پشاور کا رہائشی ہے۔ کانسٹیبل محمد ولی (2019) میں پولیس میں بھرتی ہوا۔دوران تفتیش محمد ولی نے بتایا کہ )(2021) میں فیس بک پر جنید نامی آئی ڈی سے رابطہ ہوا۔ جو جماعت الاحرار کا ریکروٹمنٹ ایجنٹ تھا ۔

 

وہ افغانستان میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر ریکروٹمنٹ کرتا تھا ۔ جنید نے مجھے افغانستان آ کر ملنے کے لیے کہا ۔(2021) میں چھٹی لے کر چمن بارڈر سے افغانستان گیا ۔ جلال آباد افغانستان میں میری ملاقات جنید سے ہوئی ۔ جنید مجھے شونکڑے اور چکناور مرکز کنہڑ لے کر گیا ۔ اس نے کہا کہ کنہڑ میں میری ملاقات دہشت گرد کمانڈر صلاح الدین اور مکرم خراسانی سے ہوئی ، ملاقات کہ بعد میں نے جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کر لی ، دہشت گرد کمانڈر ملا یوسف کے ہاتھ پر بیعت کی، جماعت الاحرار میں شامل ہونے پر مجھے بیس ہزار روپے ملے،

 

واپسی پر افغان فورسز نے گرفتار کیا لیکن جماعت الاحرار کی مداخلت پر رہا کر دیا، (2023) میں میری ڈیوٹی پولیس لائن پشاور میں تھی۔محمد ولی نے بتایا کے جنید نے مجھے کہا کہ کمانڈر خالد خراسانی کی “شہادت” کا بڑا بدلہ لینا ہے، جنوری (2023) میں پولیس لائن کی تصویریں اور نقشہ ٹیلی گرام پر جنید کو دیا ، بیس جنوری (2023) کو خودکش حملہ آور کو چرسیاں مسجد، خیبر سے لے کر آیا اور پولیس لائن مسجد کی ریکی کروائی، حملہ آور کا نام قاری اور قومیت افغان تھی، سانحہ پولیس لائن والی صبح (11) بجے خودکش حملہ آور کو چرسیاں مسجد باڑا سے لینے گیا،

 

مسجد میں حملہ آور خود کُش جیکٹ اور پولیس وردی سمیت موجود تھا۔اس نے کہا کہ حملہ آور کو چرسیاں مسجد سے موٹر سائیکل پر رحمان بابا قبرستان لے کر آیا، جہاں بمبار کو پولیس کی وردی اور خود کُش جیکٹ پہنائی، پھر موٹر سائیکل پر بٹھا کر پولیس لائن کے پاس چھوڑا، حملہ آور مسجد چلا گیا، میں گھر واپس آ گیا، دھماکہ ہو گیا تو جنید کو ٹیلی گرام پر پیغام بھیجا کہ حملہ کامیاب ہو گیا ہے، پولیس لائن خودکش حملہ کروانے پر مجھے دو لاکھ روپیہ معاوضہ ملا،

 

جو میں نے ہنڈی حوالہ کے ذریعے موصول کیا۔محمد ولی نے کہا کہ پولیس لائن حملے کے علاوہ بھی بہت سی دہشت گرد کاروائیاں کیں، جنوری (2022) میں عیسائی پادری کو پشاور میں قتل کیا، (2023) اور 2024 میں وارسک روڈ پشاور پر متعدد آئی ای ڈیز حملے کروائے، دسمبر (2023) میں گیلانی مارکیٹ میں ہینڈ گریڈ حملہ کیا، فروری 2024 میں لاہور میں موجود جماعت الاحرار کے دہشت گرد سے رابطہ کیا، لاہور میں موجود جماعت الاحرار کے دہشت گرد کا نام سیف اللہ تھا، میں نے سیف اللہ کو پستول پہنچایا جس سے اس نے ایک قادیانی شخص کو قتل کیا۔

 

اس نے بتایا کہ مارچ 2024 میں لاہور کے فیضان بٹ سے رابطہ ہوا، فیضان بٹ کو پستول دیا جس سے اس نے دو پولیس اہلکار شہید کیے، مئی 2024 میں پشاور کے مختلف مقامات پر دھماکہ خیز مواد دہشت گردی کے لیے فراہم کیا، جون (2024) میں دہشت گرد لقمان کو خودکش حملے کے لئے جیکٹ دے کر بس پر لاہور روانہ کیا، مگر لقمان پھٹنے سے پہلے ہی پکڑا گیا، جون (2024) میں ایک اور خود کش جیکٹ باڑہ خیبر سے رحمان بابا قبرستان پہنچائی۔محمد ولی نے مزید کہا کہ جون (2024) میں 1 اور خودکش جیکٹ موٹروے چوک پشاور میں چھپائی،

 

ایک اور خود کش جیکٹ چمکنی پشاور میں چھپائی اور ویڈیو ثبوت جنید کو فراہم کیے، جماعت الاحرار سے ماہانہ (40 / 50) ہزار ملتے تھے، ماہانہ تنخواہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے وصول کرتا تھا، 23 اگست 2024 کو جنید کے کہنے پر جمیل چوک پشاور سے دو خود کش جیکٹ لینے گیا۔ آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان نے کہا کہ 2 سال قبل پشاور پولیس لائنز میں خودکش دھماکا ہوا تھا، حملے میں 86 پولیس اہلکار شہید اور 249 زخمی ہوئے تھے،

 

سی ٹی ڈی نے پشاور شہر میں اہم کارروائی کی، خودکش دھماکے میں سہولت کاری کرنے والا ملزم گرفتار کیا گیا، مارچ 2023 میں اہم ملزم کو گرفتار کیا گیا۔آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ فتنہ الخوارج کی ذیلی تنظیم کالعدم جماعت الحرار خودکش دھماکے میں ملوث نکلی، گرفتار کانسٹیبل کا تعلق ڈسٹرکٹ پولیس پشاور سے ہے، کانسٹیبل محمد ولی عمر کو رنگ روڈ جمیل چوک پشاور سے گرفتار کیا گیا، محمد ولی نے 2 لاکھ روپے لے کر خودکش بمبار کو ریکی کروائی اور منزل تک پہنچایا تھا۔اختر حیات خان نے مزید کہا کہ کالعدم جماعت الحرارنےکانسٹیبل ولی عمر کی ذہن سازی کی، ولی عمر افغانستان کے مختلف شہروں میں جماعت الحرار کے اڈوں پر بھی گیا، ولی عمر کو افغان فورسز نے گرفتار کیا، جماعت الحرار کے کہنے پر چھوڑا گیا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.