کیامفتی محمود تحریک پاکستان کے مخالف تھے؟
الیکشن قریب ہونے کوہے،ایک بارپھرایک دوسرےپرکرپشن،کمیشن،غداری وغیرہ کےٹپے لگنےکوہے،چنانچہ دجالی میڈیاپرایک بات ہمیشہ نشرہوتی رہی ہے کہ جمعیت علماءاسلام نے آزادی پاکستانی کی مخالفت کی تھی لہذا یہ غداروطن پارٹی ہے اس لئے اس پارٹی کے مقتدر حضرات کوکلیدے عہدے سپردنہ کئے جائیں،اوراس حوالے سے مفکراسلام مولانامفتی محمود رحمۃاللہ کاایک قول جواس نے بطورمذاق کیاتھابطور دلیل پیش کی جارہی ہےکہ “شکرہےہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے” اس قول کی تشریح خوداحقرنے اپنی کتاب ” علماء اور سیاست” میں کی ہے معروف مذہبی اسکالر مولانا زاہد الراشدی صاحب بھی اس حوالے سے لکھ چکے ہیں ایسے ہی دیگرکالم نویسوں نے بھی اس قول کی مثبت تشریح کی ہے آج ہم اس حوالے سے خودمفتی محمودرحمۃ اللہ کی جواب کوتحریرکریں گے جوانہوں نے روزنامہ مشرق کے نمائندے ریاض بٹالوی کودیاتھا،ویسے بھی جولوگ جمعیت علماء اسلام پریہ الزام لگاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام کے بزرگوں نے مولانامفتی محمود کی شکل میں برطانوی سامراج سے ٹکرلی تھی،اوروہ برصغیرکے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ میں پیش پیش تھے،کسی پر ملک دشمنی یاپاکستان سے غداری کا الزام لگادینافیشن بن چکاہے،مادرملت فاطمہ جناح کونہیں بخشاگیا،ڈاکٹرقدیرخان کے ساتھ کیا سلوک کیاگیا،ہمارے دیگرپشتون لیڈران کو معلوم نہیں کس کس نام سے پکاراگیا،ہمارے نسل نوکوہمارے بڑوں کی تاریخ سے بے خبررکھاگیا،یہ الزامات وہ شخص ہی لگاسکتاہے جووطن عزیزکے مفادات کے خلاف کام کرے،بہرحال محترم ریاض بٹالوی نے مولانامفتی محمود سے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی خالفت سے متعلق سوال کیاتومولانامفتی محمودجواب کچھ یوں تھا!
کسی بھی شخص پر نظریہ پاکستان کی مخالفت کاالزام لگاکراسے مطعون کرنا دراصل فیشن بن چکاہے،اورمخالف سیاسی جماعتیں اس الزام کوایک دوسرے کے خلاف موثر ہتھیار کے طورپراستعمال کررہی ہیں،میں سمجھتا ہوں یہ رجحان درست نہیں،اوراس قسم کے الزامات سے قوم اور ملک کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتابلکہ ملک کے اندر سیاسی انارکی پیدا ہوتی ہے،کوئی شخص مطعون اس وقت کیاجاسکتاہے جب اس کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے کہ اس نےبرصغیرکے مسلمانوں کی تحریک آزادی میں برطانوی سامراج یامسلم کش طاقتوں کاساتھ دیاہواورقیام پاکستان کے بعد اس مملکت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہو،یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی فعال سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے حقوق اور اسلامی اقدار کے احیاء کے لئے کسی نہ کسی صورت میں جدوجہدشروع کررکھی تھی،ان جماعتوں کابنیادی مقصد یہ تھاکہ اس خطے سے برطانوی سامراج کونکالاجائے،اورایک ایسانظام حکومت قائم کیاجائےجس میں خداکے دین اورامت محمدیہ کابول بالاہواورمسلمانوں کے حقوق محفوظ رہیں،ان سیاسی جماعتوں کے پروگرام مختلف ہوسکتے ہیں مگرمقصدایک ہی تھااوروہ مقصدتھا”اسلامی مملکت کاقیام،اوراسلامی اقدارکااحیا”اگراس وقت ہم نے مسلم لیگ کے پروگرام سے اختلاف کیااوراس کے نظریات کی تائید نہ کی تویہ یقینایہ جرم نہیں ہے،اوراس بات پرکسی کوپاکستان کے دشمنوں کے صف میں کھڑا نہیں کیاجاسکتا،ملک سے غداری یاملک دشمنی کاالزام قیام پاکستان کےبعد توتراشاجاسکتاہےاس سے قبل اگرکوئی لیڈرمسلم لیگ کی صفوں اوراوراس کی جدوجہدمیں شریک نہیں رہامگردیانتداری سے مسلمانوں کے حقوق کی لڑتارہاہے تواسے غداریاپاکستان کادشمن نہیں کہاجاسکتا،مجھے فخرہے کہ میں اور میرے رفقاء گزشتہ 22 سال (انٹرویوکےوقت) سے پاکستان کے بنیادی نظریے یعنی اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں،اورپاکستان کی سالمیت،تحفظ اوربقاء کے لئے زندگیاں وقف کردی ہیں اب ابھی اگرکوئی ہمیں نظریہ پاکستان کا مخالف سمجھتا ہے تواس لاعلاج میرے پاس نہیں ہے،جولوگ اس قسم کی بحث چھیڑرہے ہیں وہ قومی سیاست میں الجھاؤ پیداکرناچاہتے ہیں،اوریہ اندازبہت غلط ہے ۔