کرپشن ایک ….ناسور

0 80

اللہ تعالیٰ نے زندگی کو خوبصورتی سے نوازا ہے۔ ہر موڑ و راستے کے کارواں کو آپ قرآن پاک کی منور روشنی سے سہل اور خوبصورت منظر سے دیکھئے اس کو تسلسل سکون سے نوازتے ہیں۔ اگر اس کے برعکس عکسی دوام بخش کر بے چینی‘ گمراہی‘ ڈر و خوف کے پُرخار راستوں پر چلتے رہتے ہیں۔ جہاں دنیاوی اثرو رسوخ ‘ دولت عہدے تو ہیں لیکن آخرت کو بھول رہے ہیں۔ ان تمام کا حصول عصر حاضر ہر جائز کو ناجائز ذرائع سے استفادہ ہی حاصلِ جیت ہے۔
کینسر ایک ایسا جان لیوا مرض ہے جس سے آج کے جدید دور میں بھی صحت یاب ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو وہ اپنی بقیہ زندگی کے محض دن گننے میں گزار دیتا ہے۔ وہ سسکتے دن اور رات حصول نیند حصول چین موت کے سفر کی طرف آہستہ آہستہ رینگتا ہے۔ بالآخر موت کی آغوش میں پناہ لیتا ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو کسی بھی قوم کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ کرپشن کسی بھی ادارے اور معاشرے یا قوم کو بربادی کے کنویں میں دھکیلتا ہے۔ دنیا بھر کے بہت سارے ممالک کرپشن کی زد میں ہیں ان میں مغربی ممالک بھی شامل ہیں لیکن ان ممالک میں اگر کوئی کرپشن کرتے پکڑا جائے تو اس کا سزا سے بچنا مشکل ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں کرپشن ہماری رگوں میں ہیروئن کے نشہ کی طرح سرایت کر چکی ہے اور ہم ہر روز کرپشن کے انجکشن لگا کر خود کو زندہ رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں بدعنوانی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ سرکاری اداروں میں ناجائز کاموں کو جائز کروانے کے لئے افسران بالا کو تحفے تحائف دینا روز مرہ کا معمول بن چکی ہے۔اس وقت تک فائل حرکت کرتی ہے نہ افسران عام آدمیوں سے ملنا گوارا سمجھتے ہیں۔ جب تک اونچی سفارش یا پیسوں کی شکل میں رشوت نہ دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔
صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ سرکاری افسران اور عوام کے درمیان نفرت کے دروازے پروان چڑھے ہیں۔اس قسم کے ماحول سے دونوں کے مابین اعتماد کا فقدان فروغ پا گیا ہے۔تھانہ کلچر پر نظر ڈالیں تو سفید پوش لوگ اپنے جائز کام حل کے لئے جانا بھی اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ وہاں کے ترش لب و لہجہ کسی کی بھی پگڑی اُچھالنے یا عزت کی پامالی کسی بھی قسم کے احساس سے ماوراں ہے۔ اگر مٹھی گرم کر دی جائے تو وہی انسان عزت و تکریم کا مستحق ہوتا ہے۔کرپشن اور رشوت کا یہ عالم کہ سرکاری منڈیوں میں بولیاں دے کر اپنی من پسند کی تقرریاں حاصل کی جاتی ہیں۔ مفاد پرستی کی پرورش کو پروان دینے میں یہ ہی روح رواں ہے۔ عوام اگر انصاف کے حصول میں عدالت کا رُخ کریں تو پرچی ازم کا یہ کھیل نیچے سے اوپر تک ہر قدم پہ آپ کا منتظر ہو گا۔ یہ قائد اعظم کا خواب علامہ اقبال کا فکر پاکستان ایک عظیم مقصد لا اِلہٰ اللہ کے نام سے حاصل کیا گیا ہے۔ گوناگوں آزادی کے ساتھ ہر محکمہ کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پہ مبنی فرائض منصبی کی ادائیگی کے قول و فعل کو واضح طور پر حلف کے ساتھ انجام دہی کی تلقین رہی ہے۔آج کا پاکستان جہاں کرپشن اور رشوت کو بیک ڈور سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ سرعام بھتہ وصولی اپنا حق سمجھا گیا ہے۔ وہاں ترقی کا خواب دیکھنے والا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔جن اداروں کے افسران ناتجربہ کار‘ نااہل اور بددیانت ہوں ان سے کرپشن اور رشوت کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ اس طرح عالم اقوام میں جگ ہنسائی کے مواقع فراہم کر کے پاکستان کی ساکھ کو باعثِ ندامت کے ذرائع فروغ پا رہے ہیں۔ کرپشن کسی بھی ادارے اور معاشرے کی تباہی میں کینسر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاشرے یا قوم کو بربادی کے کنویں میں دھکیلتا ہے۔ ہر موذی مرض کا علاج دریافت ہو رہا ہے۔ لیکن کرپشن ایک ایسا لاعلاج مرض بن چکا ہے اور اس کی جڑیں اتنی گہرائی میں پھیل چکی ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک اس سے باہر نہیں نکل سکتی جب تک وہ خود اس کا خود سدباب نہ کرے۔ رشوت ‘ کرپشن اور بدیانتی کا بازار اس قدر معاشرہ میں سرایت کر گیا ہے کہ عام روز مرہ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پھر عصرِ حاضرِ ریڑھی بان سے لے کر اونچی سطح تک مختلف مراحل میں اس کے نتائج ہر انسان بھگت رہا ہے۔ معمولی سی مثال کہ آپ سبزی فروش کو ہی لیں وہ تعریفی انداز میں سی کیٹگری کی سبزی کو اے کیٹگری میں بیان کر کے آپ سے دُوگنا رقم وصول کرے گا۔ مختلف انواع اقسام کی پراڈکٹ پر لیبل اعلیٰ کوالٹی لیکن اُس میں بھی گھٹیا اقسام کا واسطہ روز مرہ زندگی کا ایک حِصّہ بن چکا ہے۔ زبان زد پہ ہر طبقہ¿ فکر کا حرف شکایت لیکن آواز اُٹھانے کی معاشرہ میں جرا¿ت ناپید ہو گئی ہے۔ یہ وہ نتائج ہیں کہ ہر محکمہ اس اقربا¿ پروری ‘رشوت اور کرپشن میں اس طرح دھنس گیا ہے۔ جو تھوڑی بہت انسانیت بیچاری آواز ہیں وہ بھی ان تمام میں دب کر خاموش تماشائی بن جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاتھ لمبے ہونے سے ان کا کام عروج بام ہے۔
دُنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں کھانے پینے کی اشیاءکوالٹی پر کمپرومائز نہیں ہوتا۔ عالم اسلام میں یہ زندہ مثالیں ہیں۔ وہاں بھی قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہے۔ آپ کو ہر محکمہ میں قانون کی بالادستی نظر آتی ہے۔ دُنیا میں کرپشن موجود ہے لیکن بغور جائزہ وہاں کی سزائیں سخت اور ”وہ لاگو بھی ہیں“ان کی زد سے بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بعض قسم کی رشوت کو قدرے قبولیت حاصل ہے۔ مثلاً امریکہ میں سیاست دانوں کو نقد رقوم بطور سیاسی مدد دی جا سکتی ہے۔ جو بعض دوسرے ممالک میں غیر قانونی رشوت تصور ہو گی۔ عرب ممالک میں اہلکاروں کو بخشش ادا کی جاتی ہے۔جو غیر قانونی نہیں سمجھی جاتی ہے۔ بدترین قسم کی رشوت وہ ہے جو قیدیوں کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے اور اس کے بدلے قیدیوں سے بدسلوکی نہیں کی جاتی۔ اس کا رواج پرانے زمانہ میں برطانیہ جیسے ممالک میں بھی رہا ہے اور موجودہ زمانہ میں پاکستان میں بھی ملتا ہے۔
ملک میں کرپشن کی روک تھام کے لئے نیب کا ادارہ موجود ہے لیکن وہاں بھی تمام عوامل سرگرم عمل ہیں۔ اسی طرح صوبائی سطح اینٹی کرپشن محکمہ کی موجودگی تو ہے لیکن نتائج ہم سب کے منہ چڑا رہے ہیں۔ کرپشن کی شرح اس حد تک بلند ہے کہ اس کا سدِباب مشکل ترین عمل کا روپ دھار چکی ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.