چیئرمین ہائرایجوکیشن کمیشن ڈاکٹرطارق بنوری کی میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو
اسلام آباد چیئرمین ہائرایجوکیشن کمیشن ڈاکٹرطارق بنوری نے کہا ہے کہ پاکستان کودنیاکیلئے تعلیم کی منزل بنانا چاہتے ہیں تا کہ دوسرے ممالک سے لوگ حصول تعلیم کیلئے پاکستان کا سفر کریں،ملک میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے،پروفیسرز اوروائس چانسلرز کی استعداد کاربڑھانے کیلئے نیشنل اکیڈمی آف ہائرایجوکیشن کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے، اس وقت ملک میں 15ہزار پی ایچ ڈی پروفیسرز ہیں جبکہ 195یونیورسٹیز ہیں،یونیورسٹیز میں انتظامیہ اور گورننس بہتر نہیں، تمام وائس چانسلرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے نظام میں شفافیت لائیں تا کہ حکومت سے مزیدفنڈز کا مطالبہ کیا جاسکے، ایچ ای سی کو اس وقت فنڈز کی شدید قلت کا سامنا ہے،گزشتہ تین سالوں سے ایچ ای سی کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے اور مختص کردہ بجٹ بھی پورا نہیں دیا گیا،یونیورسٹیز میں حکومتی مداخلت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ،جس سے یونیورسٹیز کے اندرونی ڈھانچے کمزور ہو چکے ہیں۔وہ بدھ کو یہاں ہائرایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)میں میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔طارق بنوری نے کہا کہ جب ایچ ای سی کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس وقت صرف 276طالبعلم رجسٹرڈ تھے اور تعلیم کا جو معیار ہے وہ خاطرخواہ نہیں تھا اور اعلیٰ کے حصول کے مواقع بھی میسر نہیں تھے،اس وقت ایچ ای سی کے پاس 30لاکھ طالب علم رجسٹرڈ ہیں،پندرہ سالوں میں طالب علموں کی رجسٹریشن میں 10گنا اضافہ ہوا، ہر سال 10سے 15فیصد انرولمنٹ بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں سیٹیں بڑھانا پڑتی ہیں، ریسرچ میں بھی اضافہ ہوا ہے جو ریسرچ جنرل ہیں ان کی تعداد 800سے 15ہزار ہو چکی ہے، یونیورسٹیز کے فیکلیٹیز کے پاس ایک چوتھائی پی ایچ ڈی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کے معیار پر لوگوں کے تحفظات ہیں، لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ سی ایس ایس کے امتحان میں 10ہزار میں سے صرف 300لوگ پاس ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 17سے 23سال کی عمر کے بچوں کو تعلیم مل رہی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جو بچہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے اس کیلئے سیٹ ہونی چاہیے،جس شرح سے طالب علموں کی تعداد بڑھ رہی ہے اسی طرح پروفیسرز کو تعلیمی سہولیات بھی بڑھانا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی معیار کے سنگین مسائل ہیں، صرف رینکنگ کی نہیں بلکہ معیار تعلیم اور ریسرچ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، دنیا کے کسی بھی ملک کے کل بجٹ کا چار فیصد تعلیم کیلئے مختص ہوتا ہے جبکہ ایچ ای سی کو اس وقت 0.25فیصد دیا جا رہا ہے اور گزشتہ تین سالوں سے فنڈز میں اضافہ نہیں ہوا،حکومت نے ایچ ای سی کو معمول کا محکمہ سمجھ لیا ہے، اس وقت ہمارے پاس اپنی ضروریات سے 40فیصد بجٹ کم ہے، گزشتہ سال 82ارب روپے بجٹ مختص کیا گیا جس میں سے صرف 65ارب ملا، اب 91ارب درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نئی یونیورسٹیاں تو بنا دیتی ہے لیکن فنڈز میں اضافہ نہیں کیا جاتا، ایچ ای سی کا ڈویلپمنٹ بجٹ گزشتہ سال 45ارب تھا جس میں سے 30ارب ملا ہے، اب ڈویلپمنٹ بجٹ 55ارب درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیز کے معاملات میں مداخلت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور جو مداخلت کی جا رہی ہے اسے حق سمجھا جاتا ہے، جس سے یونیورسٹیز کے اندرونی ڈھانچے کمزور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیز کی خود مختاری ایک بڑا چیلنج ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہو اور یونیورسٹیز خود مختار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی استعداد کار بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، چربہ سازی کے ایشوز عام ہیں، نیشنل اکیڈمی آف ایچ ای سی کو دوبار فعال کیا جا رہا ہے تا کہ پروفیسرز اور وائس چانسلرز کی تربیت کی جا سکے اور ان سے پروفیسر بھرتی ہو ہم اسے سکھانا شروع کریں کہ آپ نے ایک دن وی سی بننا ہے اور خود کو اس کیلئے تیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں 195یونیورسٹیز ہیں جن میں وائس چانسلرز موجود ہیں،ملک میں 15ہزارپی ایچ ڈی پروفیسرز ہیں،گرینڈ چیلنج کو لوکل چیلنج فنڈ قائم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ملکی و مقامی مسائل پر ریسرچ کروائی جا سکے، ہمارے ہاں جرائم دہشت گردی اور زمینوں پر قبضوں جیسے ایشوز عام ہیں، تجارت کو بہتر بنانے پر ریسرچ کروانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں طالب علموں کے کیریئر پر توجہ نہیں دے رہیں، تعلیم کے معیار کو اتنا بہتر بنانا چاہتے ہیں کہ دنیا سے لوگ حصول تعلیم کیلئے سفر کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کی ٹاپ100یونیورسٹیز میں پاکستانی کوئی یونیورسٹی نہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کیلئے بیرون ملک سے واپس آنے والوں کی شرح 97فیصد ہے جو 3فیصد واپس نہیں آتے ان کے خلاف کیسز بنائے جاتے ہیں۔(اح+آچ)