پشتون جرگہ کا اعلامیہ اور بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے!!!
خصوصی تجزیہ و تبصرہ
عبدالمتین اخونزادہ
سربراہ
مجلس فکر و دانش،،
unreath17@gmail.com
majles e fikr o danies
what’s up 92 📰 3337803221,
جرگہ پشتون قومی زندگی میں سب سے اہم اور معتبر مانا جاتا ہے جسے ہم آج کی زبان میں پشتون نیشنل اسمبلی یا اعلی اختیاراتی کونسل بھی کہہ سکتے ہیں جس پر پشتون قوم بجا طور پر فخر کرتے ہیں،،
بنوں خیبر پختونخوا میں قیام پاکستان کے وقت اعلیٰ سطح جرگے کا انعقاد ہوا تھا جس کی تفصیلات آج کے نسلیں نہیں جانتے ہیں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی صاحب عرصے سے اعلیٰ سطح کے جرگے کے لئے بات کرتے تھے مگر سال گزشتہ جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کے المناک موت نے اس جرگے کے انعقاد کے متعلق دباؤ بہت بڑھایا اب جبکہ جرگہ
اپنے اختتامی مراحل اور تیسرے یعنی آخری دن کے کاروائی و اعلامیہ جاری کرنے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ہے، ضروری ہے کہ مناسب ضروریات کے لئے آواز بلند کی جائے،،
اگرچہ یہ جرگہ کامیاب ہونے کے باوجود پوری تیاری و توانائی اور جرگوں کے انعقاد کے لئے مناسب طریقہ کار کے مطابق نہیں ہو پایا ہے اس پر اعلامیہ پڑھنے کے بعد تفصیلی بحث و مباحثے کی ضرورت ہے سردست اہم نکات و دانش مندی کے لئے درج ذیل ہو سکتے ہیں،،
اول،،
پشتونوں کے پر افتخار تاریخ و دانش مندی کا ورثہ رکھنے کے باوجود افغانستان میں نظریاتی لڑائیوں نے بطور قوم و ملت اور نسل و مذہب بنیادی اسٹرکچر اور تعمیری ماحول میں جوہری دراڑ پیدا ہوا ہے جسے نظر انداز کر کے بھرپور اور حقیقی تجزیہ و فکری مکالمے کے بغیر پشتون قوم کے لئے کوئی نسخہ شفاء کاملہ ممکن نہیں ہے،،
دوم،،
پشتون شخصیات و عوام الناس دونوں انتہاؤں پر ہیں مذہب اور قوم کے دائرہ کار میں خرابیوں کے تجزیے اور تعمیری مباحث و دانش مندی کی آرزو مندی ضروری ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں،،
سوم،،
قوم پرستوں کے مسائل کے حل کے لئے میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے ورنہ 21 ویں صدی کے شعوری ارتقاء و فکری مکالموں کی تشکیل و تعبیر نو کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ قومی تشکیل و تعمیر نو کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی و سماجی شعور کی احیاء و تجدید ممکن ہو سکے،،
چہارم،،
مذہب اور قوم کی کشتیاں پرانی ہیں ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو اور مثبت و ثمر بار انسانیت کی شعوری ارتقاء و فکری تبدیلیاں رونما ہونے کے بعد نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور نئے نسلوں کے لئے نئے عمرانی و سماجی شعور کی بیداری و احیاء کی ضرورت ہیں،،
پنجم،،
خواتین و طالبات اور نوجوانوں و بچوں کے لئے پشتون قبائیل کے مزاج و افکار میں زیادہ دانش مندی نہیں ہیں جبکہ وقت اور حالات نے بدل کر بنیادی تصورات اور زندہ سوالات کھڑے کئے ہیں کیا یہ جرگہ و اسمبلی ان اہم ترین مقدمے کے لئے ورکنگ گروپس تشکیل دینے میں کامیاب و سنجیدہ کوشش کرتے ہیں،،
دیکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان،جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے احترام و اہمیت کے پیش نظر جرگے کے اعلامیے پر کیا بات کرتے ہیں جناب اسفندیار ولی خان کے صاحب زادے اور فکر باچاخان کے موروثی وارث ایمل ولی خان اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایجنڈا و بیانیہ کیا رنگ اختیار کرتے ہیں، جناب سراج الحق، مرحوم قاضی حسین احمد کے جانشینی کا فریضہ کیسے ادا کرتے ہیں جسے محمود خان اچکزئی چچا/ اکا کہتے تھے آفتاب احمد خان شیرپاؤ سرکاری زبان بولتے ہیں کہ پشتون قوم پرستی سے اظہار ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں منظور پشتین کیا نکات و تفصیلات شئیر کرتے ہیں تب اعلامیہ پر عملدرآمد کرنے کا مرحلہ درپیش ہوگا اور اس اعلامیہ کا تجزیہ و موازنہ برمحل استدلال سے وقت و حالات کی نزاکتوں کے ساتھ ضروری ہے،مجموعی طور پر پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور کارکنان مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں اپنے تنظیمیں اور قومی ضرورت کے پیش نظر کامیاب جرگہ منعقد کیا خواتین کی شرکت و گفتگو قابل قدر ہیں البتہ پشتون دانشوروں اور مفکرین کا نظر انداز ہونا نیک شگون نہیں ہیں###