مفکراسلام مولانامفتی محمودایک عبقری شخصیت

0 155

مفکراسلام مولانامفتی محمودجوعوام وخواص میں مفکراسلام کےنام سےمشہورومعروف ہیں ،آپ کی پیدائش 1919ئ کوعلاقہ پنیالہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہواآپ کی زندگی کاہرلمحہ آنےوالےنسلوں کیلئےموجب تربیت اورمشعل راہ ہے آپ اخلاق اوراتباع سنت اورتواضع وفروتنی کےاعلی درجہ پرفائزتھے اللہ رب العزت نے آپکوحمیت وعزیمت سرفروشی اوراعلائ کلم اللہ کیلئے بیحدامتیازی جزبہ عطافرمایاتھاآپکی حیات مبارکہ جدوجہداورمجاہدہ کاخوشنماعنوان ہے اورآپکی ذات اقدس کاتصورآتےہی
احقاق حق اورابطال باطل کےنظارےذھنوں میں گردش کرنےلگ جاتےہیں مولانامفتی محمودکاتوکل صبروقناعت۔ریاضت وعبادت۔تقوی وطہارت۔مجاہدہ اوراستقامت۔استغنائ۔حب فی اللہ اوربغض فی اللہ میں جس طرح کوءمثل نہیں اسی طرح تبحرعلمی ووسعت نظری تفقہ عدالت وثقاہت حفظ واتقان فہم وفراست میں بھی کوءنظیرنہیں تھا پس بےنظیرمفتی وقت اوربےمثیل شیخ وقت کی سوانح کوءلکھے توکیالکھےاوراسکی محاسن بیان کرے
توکیابیان کرےجیساکہ شاعر کہتاہے۔۔۔فداہوآپکی کس کس اداپر۔۔۔ادائیں لاکھ اوربےتاب دل ایک۔۔پھربھی مشت نمون ازخروارکےطورپرکچھ حقائق آپکی متعلق حوال قرطاس کرتاہوں۔۔۔آپ کاغربت وناداری میں صبرواستقامت۔۔حضرت مفتی صاحب علم وفضل درس وتدریس اورخدمت واشاعت دین کےعظیم ترین منصب پرفائزہونےکےباوجوددرویش صفت انسان اوربوریانشین عالم تھےاوردینی منصب کیساتھ ساتھ اعلی سرکاری مناصب پر فائزہونےکےباوجودمفتی صاحب فقیرمنش شخصیت تھے۔جیساکہ قول شاعرہےوہ اسکی مصداق ہے۔۔حاجت بکلاہ برکی داشتنت نیست۔۔درویش صفت باش کلاہ تتری دار۔۔۔۔۔۔۔۔کہتےہیں کہ انکی گھرمیں
انتہاءغربت تھی انکے گھرمیں گندم کی روٹی کاتصور بھی نہیں تھا اورباجرے کی روٹی بھی کبھی کبھار پکتی تھی مولاناعبدالقیوم حقانی فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ میرےبڑے بھاءنےہم تینوں بھائیوں کو بلایااورفرمایا تمہیں معلوم ہے کہ ہمارےگھر میں گندم کی روٹی پکتی ہے اورحضرت مفتی صاحب کےگھرمیں نہ گندم ہے اورنہ گندم کی روٹی پکتی ہے اورحضرت مفتی صاحب کےگھرمیں باجرےکی روٹی پک رہی ہے چنانچہ ہم نے بھاءصاحب کی
تجویز اورحکم پر اپنےاپنےگھرسے ایک من گندم جمع کی اورحضرت مفتی صاحب کےگھرپہنچادی۔۔اوراس کےعلاوہ آپ بےانتہائ خاکسارتھے۔مہمانوں کی خدمت اورعزت افزاءحضرت مفتی صاحب کی زندگی کامعمول تھامہمان کوگھرکیلئے رکت سمجھتےتھےخودذاتی طور پران کےآرام کاخیال رکھتےاورفرمایاکرتے کہ مہمان تحف خداوندی ہےلہذامہمانوں کی اکرام ہوناچاہیئےاورجب بھی کوءمہمان آتا توہراک مہمان سےاٹھ کرمعانقہ کرنےکاکوشش فرماتےباوجودیکہ حضرت مفتی صاحب جسم کےلحاظ بہت بڑےتھے لیکن اسکے باوجود ہراک مہمان کوکھڑاہوکرمصافحہ کی کوشش کرتاتھااوراگرکوءکہتاکہ آپ کیوں اتناتکلف کرتےہو تومفتی صاحب فرماتے کہ اخلاق اورشرافت یہی ہے جس کامیں التزام کرتاہوں اسلئے اگرچہ مجھےدشواری کاسامناہوتاہےلیکن ہراک کوکھڑاہونایہ میرے ضمیرکافیصلہ ہے۔۔۔نگاہ بلندسخن دلنوازجان پرسوز۔۔یہی ہے رخت سفر میرکاروان کیلئے۔۔۔اسی طرح حضرت مولانامفتی محمودصاحب علمی میدان میں اک نابغہ حیثیت رکھتاہے جس کی بین دلیل اسکی تقریبا20ہزارفتاوی جات ہیں جوعرب نے بھی اورعجم نے بھی استفتائ کئےتھے جس کامجموعہ فتاوی مفتی محمود کےنام سے 24جلدوں میں شائع ہوچکی ہےاورتفسیرکانام تفسیرمحمودہےاوراسکےعلاوہ حضرت مفتی صاحب کےدروس ترمذی ہمارے استازمکرم شیخ المشائخحضرت ڈاکٹرشیرعلی شاہ صاحب رحمہ اللہ نے زادالمنتہی کےنام سے جمع کیاہےجس سے مشائخ وقت استفادہ کررہےہوتےہیں اوراس کےعلاوہ عرب دنیامیں جب بھی کسی مسئلہ مشکل سامنے آجاتاتوعرب علمائ حضرت مفتی صاحب سےراھنماءچاہتےاوراستفادہ کرتے اسکااک مثال سعودیہ میں استعمال شدہ پانی کادوبارہ استعمال کیلئے فلٹرکرنےکافتوی بھی مولانا مفتی محمودصاحب رحمہ اللہ نےدیاتھا اسکےعلاوہ آپکی استغنائ کی انتہائ یہ ہے کہ ایک دفعہ کراچی میں لالہ اسراراحمدخان جوکہ ضلع حیدرآبادکے بڑےوڈیروں اورچوہدریوں میں شمار ہوتاتھانےحضرت مفتی صاحب سے ملاقات کی اورحضرت مفتی صاحب کومبلغ 10000دس ہزارروپیہ کاچیک پیش کیاکہ آپ اپنی ذات کیلئےقبول فرمائیں مفتی صاحب نے یہ کہہ کرچیک واپس کردیا کہ میری ضروریات الحمدللہ پوری ہورہی ہیں مجھے ضرورت نہیں بالآخر جب خان صاحب نےزیادہ اصرارکی توحضرت مفتی صاحب نےفرمایا کہ اگرآپ مدرسہ کی خدمت کریں تواس پرہم دونوں کواجر ملےگا خان صاحب نےوعدہ کرلیااور40000چالیس ہزارروپیہ دینےکاارادہ ظاہرکیا جسمیں سے پہلی قسط کےطورپرمبلغ 20ہزارروپیہ بزریعہ ڈرافٹ مدرسہ قاسم العلوم ملتان کوارسال کردیےگئے اوراسی طرح اک دوسرےواقعہ میں جب زوالفقارعلی بھٹوصاحب وزیراعظم تھےاورحضرت مفتی صاحب قائدحزب اختلاف تھےدونوں میں آئینی جنگ جاری تھی ان دنوں وزیراعظم بھٹونےاپنےاک وزیرفیض اللہ کنڈی کوکمشنرجہانزیب خان کےہمراہ مفتی صاحب کے گاو¿ں عبدالخیل بھیجادونوں نےعبدالخیل پہنچ کرمفتی صاحب سے ملاقات کی اورساتھ ہی مدرسہ قاسم العلوم ملتان کی مالی مدد کےنام پرکروڑوں روپیہ کی آفرکی مفتی صاحب نے وہ آفر ٹھکرادی وزیرموصوف نے جب دیکھاکہ دال گلتی نظرآرہی ہےتواپنی پیش کش ایک کروڑسے دوکروڑکردی آخرمیں اک سادہ چیک یہ کہہ کرپیش کردی کہ مجھے وزیراعظم بھٹوکاحکم ہےآپ خوداسمیں جتنی رقم درج
کرناچاہئے کرسکتاہے مفتی صاحب غصہ میں ہوکربولافیض اللہ خان تم میرامہمان ہواورمیں تیرا پڑوسی ہو تم مجھے خوب جانتےہوتمہارےلئے بہت افسوس کی مقام ہے کہ میرےپاس گندگی کےٹوکرےاٹھاکرلےآئےہوں کبھی چھوٹاٹوکراآگے کرتےہوکبھی بڑاٹوکرااورفرمایافیض اللہ خان گندگی توگندگی ہےچھوٹی ہویابڑی اسےاٹھالواوروزیراعظم سے کہہ دو ہم لوگ اس جماعت سےتعلق رکھتےہیں جن کےسامنے
دنیا جیسےحقیروذلیل چیز کی کوءاہمیت نہیں۔۔۔ دیکھوحقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی عزت وعظمت کابڑاوجہ انکی استقامت اوراستغنائ تھااور یہ لوگ اللہ تعالی کےسچے بندےاورآقائ دوجہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےمخلص جان نثارتھےاسلئے دنیاسے کنارہ کش اوربیزارتھےاوران لوگوں کی کامیابی کااصل راز یہ ہے کہ ان لوگوں کی اکابرنےجوسبق صداقت شجاعت اورعدالت دیاتھاان تعلیمات پرعمل پیراتھےجیساکہ حضرت احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ فرمایاکرتےتھےکہ دنیاداروں کی غرورکی گردن کوکاٹنےکیلئےمیں نے استغنائ سے زیادہ تیزدار آلہ نہیں دیکھا دیکھوحضرت مفتی صاحب نے عملی زندگی میں وہی فلسف استغنائ اختیارکرکےسیاست کی اس پرخاروادی میں کھود کرہمیشہ کیلئے محمودرہاجیساکہ اسکانام محمودتھاویساہی کردارکی خاطرمحمودرہااوردوست دشمن اسکی کمالات اوراچھی صفات کےقائل تھےاورہم
سمجھتےہیں کہ جیسے ظاھری طورپرا س کانام محمودتھااسی ہی طرح عملی میدان میں کردارکےحوالےسےبھی محمودتھاجیساکہ ایک شاعرنےمفتی صاحب کےبارے اک شعربنایاتھااورپھراسکی مرقدپرخوشخطی سےلکھ کرلگایاہےراقم الحروف جب 2004 اور2011میں مولانافضل الرحمن صاحب سےعیدکے موقع پرملنے گیاتھاتووہاں عبدالخیل قبرستان میں
حضرت مفتی صاحب کےمرقدپر میں نے وہی شعر لکھاہوادیکھا اس میں سے اک یہ ہے۔۔اے کہ درزندگءخویش توبودی محمود۔رحمت حق بہ توپیوست بودلامحدود۔۔اوریادرہے کہ مولانامفتی محمودرحمہ اللہ کی ہمارےخاندان کیساتھ علمی رشتہ بھی ہے وہ اس طرح کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اورمیرے والدماجدشیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالسلام رحمہ اللہ دونوں ہمارےچچاشیخ الکل فی الکل شیخ الحدیث شاہی مرادآباد ہندحضرت مولاناعبدالغفور غزنوی رحمہ اللہ کےشاگردتھے اوراس نسبت پہ ہم ناز بھی کرتےہیں اورباعث فخربھی سمجھتےہیں اورحضرت مفتی صاحب کاجتناہم مجاہدےبیان کریں ہرگز اسکاحق ہم ادانہیں کرسکیں گےاسلئے کہ حضرت مفتی صاحب کمالات کی دنیامیں اک بحر بیکران اور بےکنارہیں جیسا کہ شاعرفرماتےہیں۔۔نہ حسنش غایتی داردنہ سعدی راسخن پایان۔۔بمیردتشنہ مستسقی ودریاہمچنان باقی۔بہرحال مفتی صاحب کی زندگی عبارت ہے مجاہدوں سے۔۔۔۔اوراستقامت للہیت۔اخلاص شجاعت اسکے رگ رگ میں سرایت کرچکےتھےلہذاہم کوچاہئیےکہ ہم
انکےنام لیوااسی ہی کی طرح پیکر مجاہدہ واستقامت رہئے اوراگرہم صرف اسکانام لیتے رہتے ہیں اورعملی میدان میں اسکے فلسف زندگی سے دوررہتے ہیں توہمارے لئے کوءحق نہیں بنتاکہ ہم اسکا نام لےجیساکہ شاعر کاقول ہے۔۔تجھےاپنے اکابرسے کوءنسبت ہونہیں سکتا۔۔کہ توگفتاروہ کردار توثابت وہ سیارہ۔۔۔لہذاہرسال اکتوبرمیں ہم اس بےمثال عبقری شخصیت مولانامفتی محمودرحمہ اللہ کویادکرتےہیں کہ جس کی مجاہدوں اوراخلاص کی خاطر اورقادیانیوں کوغیرمسلم قرار دینےمیں کلیدی اوربنیادی کردار ادا کرنے پر ہم اپنے مرحوم قائد کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں اورموجودہ قائدحضرت مولانافضل الرحمن صاحب پربھرپوراعتمادکااظھارکرتےہیں

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.