مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ علیہ کی قومی سیاست
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود جمعیت علماءاسلام ضلع کوئٹہ کے کی جانب آج یوم وفات مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ علیہ کی مناسبت سے تحریر لکھ کر ان کے عقیدت مندوں میں نام لکھوانا کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ جیساکہ آپ کو علم ہے حضرت مفتی صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتداءئ میں سال کی عمر میں جمعیة علمائے ہند کی حمایت میں انتخابات میں حصہ لے کر کی۔ اس انتخابی مہم میں آپ نے مراد آباد کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا اور تعلیم سے فراغت کے بعد باقاعدہ جمعیة علمائے ہند سے وابستہ ہوگئے۔ جیسا کہ آپ نے خود اس کی تصریح فرمائی کہ ئ میں آل انڈیا جمعیة علمائے ہند کی جنرل کونسل اور سرحد جمعیة کی ورکنگ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے برطانوی سامراج کے بائی کاٹ کی مہم میں قائدانہ حصہ لیا، درس وتدریس کے ساتھ تحریک آزادی میں برابر حصہ لیتے رہے۔ ئ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ نے صوبہ سرحد کا دورہ کیا تو آپ بھی جنوبی اضلاع میں ان کے ساتھ رہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ کی دعوت پر اپنے رفقائ(مولانا محمد نعیم لدھیانوی ، مولانا عبدالمنان ہزاروی ) سمیت جمعیة علمائ اسلام میں شمولیت اختیار کرلی۔ حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی رحمة اللہ علیہ کے زمانہ میں اور ان کے بعد جمعیة علمائ اسلام کے جتنے مرکزی اجلاس ہوئے ان میں شریک ہوتے رہےحضرت مفتی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد کا زمانہ جمعیة علمائ اسلام کے راہنماو¿ں کیلئے بہت سخت تھا۔ خاص طور پر صوبہ سرحد میں ان کیلئے رہنا دو بھر ہوگیا تھا۔ اس زمانہ میں چوبیس گھنٹے ہماری نگرانی کی جاتی تھی، حتیٰ کہ چلنا پھرنا اور رہنا سہنا ہر کام نگرانی میں ہوا کرتا تھا۔ حکومت کی ان سختیوں کی وجہ سے جمعیة علمائ اسلام سات سال تک منظم نہ ہو سکی اس کی وجہ صرف تقسیم ہند کی مخالفت تھی۔ حالانکہ پاکستان ایک جمہوری عمل کی وجہ سے معرض وجود میں آیا تھا لیکن پاکستان بنانے کے حامی دوسروں کے اس جمہوری حق کو برداشت نہیں کرسکتے تھے اور ابتک وہ اسی مرض میں مبتلا چلے آرہے ہیں مفتی صاحب نے ایک موقع پر فرمایا”ہم تقسیم ہند کے حامی نہیں تھے ، تاہم جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تقسیم ہند کی مخالفت کرنے والوں کا پاکستان بنانے میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل درست بات نہیں، اسلئے کہ پاکستان جنگ آزادی کی کامیابی کا نتیجہ تھا اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے آزادی کی جنگ لڑکر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پاکستان کا راستہ ہموار کیا۔جمعیة علمائ ہند کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان ایک رہے، جبکہ اسکے تمام صوبوں کو مکمل خود مختاری حاصل رہے۔ مرکز کے پاس صرف دفاع ، کرنسی اور امور خارجہ کے محکمے رہیں، بقیہ تمام امور میں سب صوبے مکمل خود مختاری کے حامل ہوں اس وقت ہندوستان کے تیرہ صوبے تھے ان میں سے چھ صوبوں میں مسلمان اور سات صوبوں میں ہندوو¿ں کی اکثریت تھی۔ ہم سمجھتے تھے اس طرح پورے بنگال ، پورے آسام، متحدہ پنجاب، سرحد، سندھ بلوچستان میں حکومتیں بنیں گی اور ان صوبوں میں کم از کم مسلمان بالکل محفوظ ہوں گے۔” آپ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: مرکزی حکومت سے متعلق بھی جمعیة علمائ ہند کا ایک فارمولہ تھا، جس کے مطابق ہمارا مطالبہ تھا کہ مرکزی حکومت میں ہندواور مسلمانوں کو دو بڑی اکثریتیں تسلیم کیا جائے اور دونوں کو ، فیصد نمائندگی دی جائے۔ جب کہ بقیہ دوسری اقلیتوں کو حاصل ہو۔ اس طرح ہم سمجھتے تھے کہ ہندو کی عددی اکثریت بھی قابو میں آجائے گی اور مرکزمیں بھی مسلمانوں کے حقوق غصب ہونے کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ کانگریس نے جمعیة علمائ ہند کے اس فارمولے کو تسلیم کرلیا تھا۔ ہم متحدہ ہندوستان میں صوبائی خود مختاری کے ساتھ رہنے کے اس لیے بھی حامی تھے
کہ اس طرح ہم غیر ملکی طاقتوں کی سازشوں سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ بہر حال یہ دیانت داری کیساتھ رائے کا اختلاف تھا اور جب مسلمانوں کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیدیا تو ہم نے بھی خوشی کیساتھ اسے تسلیم کرلیا اور ئ میں ہم نے حکومت پاکستان کو یہ یقین دلادیا کہ پاکستان کی ترقی اور اس میں اسلامی نظام کی ترویج کیلئے ہم غیر مشروط طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ علیہ نے پاکستان کی سیاست میں جو کردار ادا کیا وہ قابل فخر ہے اس کو ہمیشہ زندہ وجاوید رکھا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭