ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
تحریر: عبداللہ شمسی
وہ عظیم شخصیت جن کے چلے جانے سے ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر ایک غم کی وادیوں میں ڈوبا تھا۔ جس کو بھی ان کی وفات کی خبر پہنچتی سر پکڑ کے بیٹھ جاتا۔ موت برحق ہے ہرکسی کو آتی ہے۔ مگر کبھی کبھی موت ایسی ہستوں کو ساتھ لے جاتاہے کہ دل بے اختیار پکار اٹھتاہے کہ خدایا اس موت کو کیوں موت نہ آئی کہ اس عظیم المرتبت انسان کو لے کرگیا۔
وہ تھے حضرت مولانا شاہ نظر صاحب نوراللہ مرقدہ۔ جو خود بھی نیک اور پارسا تھے اور دوسروں کو بھی نیکی کی طرف بلاتے تھے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کامل اترنے والے تھے کہ “اگر تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو پہلے ہاتھ سے روکھو اگر طاقت نہیں تو زبان سے روکھو اگر اس کی بھی استطاعت نہیں تو دل میں برا سمجھو اور یہ کمزور ایمان کی علامت ہے”
حضرت مولانا شاہ نظر صاحب ان میں سے پہلے پر عمل کرنے والے تھے اللہ تعالی نے ان کو وہ قوت ایمانی دی تھی کہ ہر برائی کا وہ کھل کر مخالفت کرتے کسی کے مالداری، سرداری، سفید کپڑوں اور عہدوں کی کچھ پرواکیے بغیر سامنے ان پر ایسے برستے کہ مخاطب شرم سے پانی پانی ہوجاتا۔
ہر ایک کے ساتھ ایسے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے کہ ملنے والا سمجھتا کہ پورے علاقے میں شاید مجھ سے ہی اتنی محبت ہے۔ عاجزی وخاکساری میں اپنی مثال آپ تھے۔ زہد وتقوی کے پیکر اور سخاوت وبردباری میں فقید المثال تھے۔
اس کے دکھ نے نہ صرف ان کے خاندان کی آنکھوں کو پرنم کیا بلکہ پورے علاقے کے لوگوں کی آنکھ اشک افسوس بہارہاتھا۔ انہوں نے ہمیشہ عوامی خیر خواہی اور عوام کے فلاح وبہبود کے کام کئے۔
حضرت مولانا شاہ نظر صاحب کا تعلق محمد حسنی قبیلہ سے تھا وہ قاری یارمحمد حافظ عبداللہ عرف جانان اور حافظ عصمت اللہ کے والد تھے۔ آپ نے علاقے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور حسب روایات آپ نے بلاامتیاز عوام کی بے لوث خدمات کی۔ یہ درویش صفت انسان جو کہ انسان کے روپ میں ایک فرشتہ تھا۔
مولانا شاہ نظر صاحب کی خلوص نیت ملنساری دیانتداری اور ایمانداری کے باعث عوام میں ایک خاص مقام حاصل تھا انکی دینی اور عوامی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے درویش صفت انسان صدیوں میں جاکر کہیں پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا شاہ نظر صاحب ایک ایسے وقت میں ہم سے بچھڑ گئے کہ جب علاقے کی عوام اور مدرسہ کے طلبائ کو ان کی اشد ضرورت تھی حضرت مولانا شاہ نظر صاحب اپنے دور میں عوام کی بھرپور خدمت کے ساتھ ساتھ امامت کا عہدہ بھی سنبھالتا تھا اور انکے ساتھ ساتھ وہ مدرسہ دارالعلوم صدیقیہ کا بانی بھی تھا علاقاءجھگڑوں کے خاتمے میں اعلی کردار کے مالک تھے اور مدرسہ و علاقہ کے خیرخواہی کے کاموں میں سرفہرست تھے حضرت مولانا شاہ نظر صاحب ایک غیر متنازعہ شخصیت کے مالک تھے اور ہمیشہ لوگوں کی بھلاءکا سوچتے تھے میری جب بھی حضرت صاحب سے ملاقات ہوتی تو انتہاءخندہ پیشانی اور پیار و محبت سے پیش آتے تھے اور ہمیشہ جمعیت علماے اسلام کے بارے میں پوچھتے تھے کہ حالت کیسے چل رہی ہے کبھی کبھی میں اسکو کہتا تھا کہ بابا فلان شخص نے حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کے خلاف بات کی ہے تو وہ ایک ٹھنڈی سانس لیتا اور افسوس کرتا کہ ان لوگوں کو ہوا کیا ہے جو ایک ایسے عظیم قائد کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔
4 Attachments