خون سے آلود تحریر
قارئین کرام۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں بڑا سمگلر ہمیشہ “حاجی صاحب” کہلاتا ہے۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں گھر کے ماتھے پہ ‘ہذا من فضل ربی’ لکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ
‘خبردار مجھ سے مت پوچھنا یہ گھر کیسے بنایا’میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں مجرم کا دفاع استغاثہ کا وکیل کرتا ہے۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں نمبر ایک ہونے کیلئےنمبر 2 ہونا ضروری ہے۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جو موروثیت کو جمہوریت گردانتی ہے۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں حق رائے دہی قیمے والے نان اور بریانی کے ڈبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں اربوں ہڑپ کر جانے والےایک دھیلے کی کرپشن” نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں راشی کے ماتھے پر محراب ہوتی ہے۔ایک داڑھی والے سیاستدان سے کسی نے کہا شرم نہیں آتی داڑھی رکھ کر کرپشن کرتے ہو؟جواب ملا کہ داڑھی گلے تک جاکر ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے پیٹ شروع ہو جاتا ہےمیں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں حرام نہ کھانے والے کو کمزور اور بےوقوف گردانا جاتا ہےمیں ایک قوم کو جانتا ہوں جس میں “بدمعاش” کو “شریف” کہتے ہیں میں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں جھوٹ بولنے والا مشہور ہو کرصحافی کہلاتا ہےمیں ایک قوم کو جانتا ہوں جہاں لوگ غیرت کے نام پر جانیں لی لیتے ہیں مگر دو دو ٹکے کیلئے اپنا ضمیر اپنی عزت بیچ دیتے ہیں۔میں ایک قوم کو جانتا ہوں جس کو اپنے گناہ صرف تب یاد آتے ہیں ( جب زلزلہ آتا ہے)یہ ایک قوم سب کچھ ایک ہی مقصد کیلئے کرتا ہے کہ وہ کس طریقے سے دولت مند شہرت یافتہ بن جائے پیسوں کی تلاش میں ایمان ضمیر عزت ہتھلی پر نیلام کیلئے رکھا ہے۔اس ایک قوم نے پیسے کی محبت اور عشق میں پیسوں کیلئے کئی نام متخص کئے ہیں۔ آخریہ پیسہ بھی کیا چیز ہے؟ کہ جسکی تلاش کوئی قوم کوئی نام ننگ نشان اور کوئی ایمان عقیدہ تک کھوتا جاتاہے۔اِس پیسے کے مختلف ناموں میں سے کچھ یوں ہیں کہ اس قوم نے حاصل کرنے کیلئے رکھے گئے ہیں۔ جیسے۔عبادت گاہ میں دیا جائے تو چندہ، مزار کے لیے دیا جائے تو نذرانہ،اسکول میں ادا ہو تو فیس، خریداری کرنی ہو تو قیمت،شادی میں بیٹی کو دیا جائے تو جہیز، ولیمہ پہ دلہا کو ملے تو سلامی،بینک میں رکھا جائے تو ڈیپازٹ ، موبائل میں ڈلوایا جائے تو بیلنس،معاہدہ کے وقت ادا کیا جائے تو بیعانہ،ماہِ رمضان میں عید سے پہلے بانٹا جائے تو فطرانہ،عید کے دن دیا جائے تو عیدی،بچوں کو دیا جائے تو پاکٹ منی یا جیب خرچ،غریب کو دیں تو صدقہ و خیرات،امیر کو دیں تو تحفہ، دوست کو دیں تو تعاون،حکومت کو دیں تو ٹیکس، عدالت میں ادا کیا جائے تو جرمانہ،نوکری کے عوض ملے تو تنخواہ، ریٹائرمنٹ پہ ملے تو پنشن،بینک سے لیں تو لون، اداروں سے لیں تو کمیشن،ویٹر کو دیں تو ٹِپ، اغواکار کو دیں تو تاوان،غلط کام کے عوض لین دین تو رشوت، بدمعاش کو دیں تو بھتہ، شوہر بیوی کو دے تو خرچہ،ک ±ھسرے کو دیا جائے تو ویل،طوائف کو دیا جائے تو بخشش اور اگر موت کے بعد بانٹا جائے تو “وراثت” کہلاتا ہے۰اللہ سے د ±عا ہے کہ وہ ہم سب کو اس پیسہ کے چکر سے بچائے، میانہ روی سے زندگی گزارنے کی توفیق دے اور ہمیں ایمان کی دولت سے مالا مال فرمائے. اگر یہ قوم واقعی ترقی عزت دولت غیرت شہرت کے متلاشی ہے تو ذرا یہ کچھ لکیریں بھی غور سے پڑھیں۔کہ اگر آپ کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو دریا بھی بہت کچھ
سکھاتے ہیں۔1۔ دریا کبھی واپس نہیں بہتے، ہمیشہ آگے ہی آگے۔۔۔ ماضی کو بھول کر آپ بھی مستقبل پر فوکس کریں۔2۔ دریا اپنا رستہ خود بناتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے آ جائے تو آرام سےاپنا رخ موڑ کر نئی راہوں پر چل پڑتے ہیں۔مشکلوں اور رکاوٹوں سے لڑنا، بحث کرنا اور ضد کرنا دراصل وقت ضائع کرنا ہے۔3۔ آپ گیلے ہوئے بغیر دریا پار نہیں کر سکتےاسی طرح آپ کو دکھ سکھ کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوگی۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ۔4۔ دریاو ¿ں کو دھکا نہیں لگانا پڑتا، یہ خود ہی آگے بڑھتے ہیں۔۔۔کسی کے سہارے کے بغیر اپنا کام خود کریں5۔ جہاں سے دریا زیادہ گہرا ہوتا ہے، وہاں خاموشی اور سکوت بھی زیادہ ہوتا ہے۔علم والے اور گہرے لوگ بھی پرسکون ہوتے ہیں۔6۔ پتھر پھینکنے والوں سے الجھے بغیر دریا بہتے چلے جاتے ہیں۔روڑے اٹکانے والوں کی پرواہ کیے بغیر آپ بھی اپنی زندگی رواں دواں رکھیں۔7۔ ایک بڑا دریا چھوٹی ندیوں، نالوں اور چشموں کو اپنے ساتھ ملنے سے کبھی منع نہیں کرتا۔آپ بھی اپنا ظرف بلند اور نگاہ سربلند کر کے تو دیکھیں۔8۔ دریا ہمیشہ ایک راستے کی پیروی کرتا ہے، وہ راستہ۔۔جہاں سے گزر کر وہ سمندر میں پہنچ جائے۔۔۔
اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کے لیے “صراط مستقیم” تو ہمیں بھی بتایا۔۔۔ سکھایا گیا ہے۔9۔ دریا یہ بھی جانتے ہیں۔۔۔ کہ جلدی کی کوئی ضرورت نہیں، مستقل اور مسلسل حرکت سے ایک دن ہمیں منزل مل جائے گی۔۔بدقسمتی سے یہ قوم تقدیر قسمت اور وقت سے پہلے پانے کی چکر میں دن بہ دن سب کچھ کھوتے جارہے ہیں۔