اکادمی ادبیات پاکستان کے کانفرنس ہال میں مونا شہاب کے شعری مجموعہ “ستارہ رقص میں ہے” کی شام پذیرائی
ادبی اور سماجی تنظیم “اشارہ” نے امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد شاعرہ مونا شہاب کے تیسرے شعری مجموعہ “ستارہ رقص میں ہے” کی تقریب رونمائی کا اہتمام پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے اشتراک سے اکیڈمی کے کانفرنس ہال میں 8 اپریل بروز منگل شام 3 بجے کیا جس کا فلایر مجھے سب سے پہلے شیریں سید نے بھیجا، اسکے بعد شہباز چوہان اور ڈاکٹر جنید آذر نے تاکیدی نوٹ سمیت ارسال کیا. دوستوں کی محبت ہے کہ مجھ ناچیز کو بھی یاد رکھتے ہیں، یہ عید الفطر گذر جانے کے بعد کسی ادبی تقریب میں میری پہلی شرکت تھی. حالانکہ دو عید ملن مشاعرے یکے بعد دیگرے ہفتہ اور اتوار کو بھی منعقد ہونے لیکن کچھ خانگی وجوہات کی بنا میں ہر دو مشاعروں میں حاضری نہ دے پایا تھا، اور اب ادبی ہم سفروں کی ناراضگی کا اندیشہ بھی تھا تو جو کوے سکول سے نکلے تو سوے اکادمی چلے. پارکنگ لاٹ میں ہمدم دیرینہ مظہر شہزاد خان، سے پہلا ٹاکرا ہوا یہ مظہر بھی کیا ہمہ جہت شخص ہے کہ اپنی ذات میں انجمن، کارٹونسٹ، ایکٹنگ، افسانہ، غزل اور نظم کے علاوہ کالم نگاری میں بھی اپنا لوہا منواچکا ہے، ہم دونوں ایک ساتھ ہی اکادمی ادبیات کے استقبالیہ لاونج میں داخل ہوے تو سامنے صوفوں پر اکادمی ادبیات کے سابقہہ صدر نشین یعنی بقول محبوب ظفر، افتخار اردو، افتخار عارف کو مہمانوں کا منتظر پایا کہ ساتھ انکے اکادمی کے موجودہ ڈپٹی ڈایرکٹر اختر رضا سلیمی جو افتخار عارف کے دفیق کار بھی رہے ہیں، افتخار عارف صرف شاعر نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے، مجھے یاد ہے کہ 90 کی دہائی میں ہالی ڈے ان، موجودہ اسلام آباد ہوٹل ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا، کم و بیش روزانہ ہی سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی تقریب برپا رہتی تھی، ہمارا بھی نوجوانی اور دلچسپی کا دور تھا جو بلا دعوت نامے کے بھی پہنچ جایا کرتے تھے، ہمیشہ تقریب میں جس شخص کو وقت کا پابند پایا اور سب سے پہلے موجود بھی وہ افتخار عارف ہی ہوا کرتے تھے، سو آج کی اس تقریب کے بھی پہلے مہمان اور صاحب صدارت بھی آپ ہی تھے. جب آج کی مہمان خاص جن کے لیے محفل سجی تھی تشریف لے آئیں اور مضمون نگاروں میں نورین طلعت عروبہ. ڈاکٹر حمیرا اشفاق، نیلم احمد بشیر تو ریسیپشن میں گہماگہمی ہوگئی سو طے پایا کہ کانفرنس ہال چلیں اور بروقت تقریب شروع کی جائے، ہال میں اشارہ انٹرنیشنل کے ڈاکٹر جنید آذر، شہباز چوہان، اطہر ضیاء اور خالد عمانویل منتظر ملے جلد ہی جنید آذر نے تلاوت قرآن پاک سے آغاز کرتے ہوے نظامت کے فرائض انجام دینے شروع کردیئے صاحبان سٹیج کو رونق افروز ہونے کی دعوت دی. اکیڈمی آف لیٹرز کی حالیہ چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف نے میزبان ادارہ اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنی نشست سنبھالی جبکہ مہمانان اعزاز میں امریکہ سے تشریف لای معروف شاعرہ اور خصوصاً شعبہ نعت نگاری میں صدارتی ایوارڈ یافتہ نورین طلعت عروبہ. لاہور سے خصوصی طور پر شرکت کے لیے تشریف فرما نیلم احمد بشیر اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں کی افسانہ و ناول نگار. جبکہ محمد حمید شاہد مبصر و افسانہ نگار آج تاخیر سے پہنچے اور جلد بازی کا مظاہرہ کرتے کرتے اپنی گفتگو جو ہمیشہ مدلل اور تحمل سے بھر پور ہوا کرتی ہے آج چٹ پٹ کرگیے، صاحب صدارت افتخار عارف نے مونا شہاب کے فن کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی، اور اپنی کچھ یادداشتیں حاضرین کے روبرو پیش کیں انکا کہنا تھا کہ دیارغیر میں اپنی زبان و ادب کی خدمت کرنا بھی کاردار ہے، مونا شہاب کو 40 برس سے جانتے ہیں اور انکی شاعری سے محظوظ ہوتے رہے ہیں یہ بھی باور کروایا کہ علم و ادب کی دنیا میں طویل ریاضت کے بعد انکی عادت بن چکی ہے کہ اگر شعر میں انفرادیت نہ ہو تو پھر ایسی شاعری صرف نظر ہوجاتی ہے، مونا شہاب کے ہاں ہجرت کا المیہ نظر آتا ہے کیونکہ امریکہ جیسے بے حس معاشرے میں وہ اپنے وطن کی یاد سے جڑی رہتی ہیں، آپ نے سرمد صہبائی، شاہدہ حسن، شعیب بن عزیز، احمد مشتاق، گلنار آفرین، ستار وغیرہ تو پاکستان میں اپنے حصے کا کام کرکے وہاں جا بسے ہیں یعنی اپنے ملک میں تشخص، عزت اور شہرت کمانے کے بعد ہی دیار غیر کے متمکن ہوے ہیں انہیں وہاں روزی روٹی کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑا جبکہ مونا شہاب اس جنریشن سے تعلق رکھتی ہیں جنہوں نے خود یا ان کے صاحبان خانہ نے سلسلہ روزگار کے لئے ہجرت کی اور اپنی دھرتی ماں سے دوری اختیار کی یہی وجہ ہے کہ حمید شاہد نے مونا شہاب کی شاعری میں ماں تلاشی ہے. مونا شہاب اس پیڑی سے ہیں جس کو بیسویں صدی کا ادب کہا جاسکتا ہے، یہ دور اردو شاعری کیلیے سخت آزمایش اور کرب کا دور ہے جس میں ایسا ادب تخلیق ہوا جو غم، محرومی، رنج و الم کا نمایندہ ہے. کیونکہ جیسا ماحول تخلیق کار دیکھتا ہے اس کا اثر بھی لیتا ہے. ڈاکٹر نجیبہ عارف کا کہنا تھا کہ وہ مونا سے کچھ ہی عرصہ پیشتر ملی ہیں لیکن انکی شاعری نظر سے گذرتی رہی ہے، امریکہ میں انکی میزبانی سے بھی فیضیاب ہوچکی ہیں. وہ سمجھتی ہیں کہ مونا شہاب نسائی شاعری کی دنیا میں ایک اہم نام ہے جو وطن سے دور رہتے ہوئے بھی اردو کی خدمت میں پیش پیش ہیں، نیلم احمد بشیر تو مونا کی دوسری قریب ترین دوست ہیں جبھی تو لاہور سے اسلام آباد آکر شریک ہوی ہیں، َانہوں نت اپنی سریلی آواز میں مونا کی ایک غزل ترنم سے سنای جس کو افتخار عارف نے خوب سراہا. حمید شاہد نے مونا شہاب کی شاعری کو گذشتہ سے پیوستہ قرار دیا، نورین طلعت عروبہ نے مونا شہاب کی شاعری کے حوالے سے مختصر مگر جامع گفتگو کی جسے مقالہ قرار دیا جاسکتا ہے، مزید برآں مونا سے ذاتی مراسم اور خانہ داری کے تعلق کا بھی اظہار کیا، دوسرا عمدہ تحقیقی سطح کا مقالہ پروفیسر ڈاکٹر حمیرا اشفاق کا تحریر کردہ تھا جو انہوں نے سیاق و سباق سے پر اور مدلل گفتگو کیا لیکن اپنے گلے کی اچانک خرابی کے باعث خود پیش نہ کرسکیں اور یہ ذمہ داری ڈاکٹر شازیہ اکبر کو تفویض کردی، مونا شہاب کے ایک مداح جو اس محفل میں خصوصی طور پر شریک ہوے اور میری اس تحریر میں اول اول مذکور ہوے میری مراد مظہر شہزاد خان سے ہے، انہوں نے اپنے خوبصورت جذبات کا اظہار ان دو اشعار میں کیا جو انتساب ہوے مونا شہاب کے. دور دیس میں بیٹھے دیکھیں اپنے گھر کے خواب. ایک ستارہ رقص میں ہوگا وجہ میں پھر مہتاب. شعروں کی توفیق ملی تو اتری ایک کتاب. خود مرصع شعر مرقع واہ مونا شہاب. مونا شہاب نے اشارہ اور اکادمی کا شکریہ ادا کیا کہ عجلت میں اتنی خوبصورت تقریب منعقد کی اور کلام شاعر بزبان شاعر کی رو سے حاضرین کو اپنی چیدہ چیدہ شاعری سنای، آخر میں جنید آذر نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، رسم کیک کٹائی اور گروپ فوٹو کے بعد شرکا محفل کے لیے شیفریشمنٹ کا بھی انتظام تھا